ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
کوبہانے سے محل کے اندر لے گئی تواس محل کے آگے پیچھے سات دروازے تھے اور ہرایک دروازہ پر ایک ایک مضبوط قفل لگاتھا جب یہ اطمیناہوگیا کہ ساتوں دروازے نہایت مضبوطی سے بندہوچکے تب اپنی خواہش کا اظہار کیا اب ظاہرا سیدنا یوسف علیہ السلام اگربھاگنا بھی چاہیں تو کہا ں جاسکتے ہیں اس حالت میں اگر ان کوحق تعالیٰ پرکامل بھروسہ اور توکل نہ ہوتا اور ہماری جیسی ان کی بھی ہمت ہوتی تو وہاں سے خلاصی کی کیا صورت ہوسکتی تھی مگر شان نبوت کا اقتضاء یہ اعتقاد فرماکرسیدنا یوسف علیہ السلام دروازہ کی طرف دوڑے آپ کادوڑنا تھا اورقفلوں کا خودبخود ٹوٹ ٹوٹ کردروازہ کھل جاتا تھا اسی طرح ساتوں دروازوں سے باہر ہوگئے اسی کو مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں گرچہ رخنہ نیست عالم راپدید خیرہ یوسف دارمی باید ددید دراصل بات یہ ہے کہ جوتنگی ہم کو دین میں نظرآتی ہے وہ تنگی خود ہمارے اندر ہے دین کی مثال بلکل آئینہ جیسی ہے کہ ہماری ہی صورت اس کے اندر نظرآتی ہے جیسے ایک حبشی سفر کررہا تھا راستہ پرایک شیشہ پرڑا ہوا نظر آیا اس کو اٹھاکر اپنی صورت جواس میں دیکھی توکالی صورت موٹے موٹے ہونٹ بے ڈھنگی ناک نظرآئی اس نے کبھی آئینہ نہ دیکھا تھا یہ سمجھا کہ اس کے اندر کوئی دوسراشخص ہے شیشہ کو دور مارا اور کہا کہ اگر ایسا بدصورت توجناب ہی کی صورت تھی مگر الزام شیشہ پراسی طرح تنگی تواپنے اندر اور الزام دین پرجیسے ایک عورت بچے کو پاخانہ پھرا کر اور کپڑے سے پونچھ کرعید کا چاند دیکھنے لگی عورتوں کو عادت ہوتی ہے اکثر ناک پرانگلی رکھ کربات کرتی ہیں چاند دیکھتے وقت ناک پر بھی اتفاق سے انگلی رکھی تھی اوراس کا پاخانہ لگارہ گیا تھا تو کہتی ہےکہ اے ہے ابکے چاند سڑا ہوا کیوں ہے بھلابتایئے چاند اور بدبو وہ بدبو تو اپنے میں تھی مگر الزام چاندپر ۔ طریق میں نفع کا دارومدار : (ملفوظ 77) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ طریق میں نفع کے لیے دو چیزیں خاص طور پر