ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
شریف سے ثابت ہے کہ حق تعالٰی فرماتے ہیں فاسعوا الٰی ذکراللہ وذروا البیع ، اس کو ذکر فرمایا ہے ذکری بمعنی تذکیر نہیں فرمایا جیسے قرآن مجید کے متعلق فرمایا ہے وما ھوالا ذکریٰ للعلمیں پس خطبہ امر تعبدی ہے جیسے نماز میں قرآت اس میں قیاس کا کچھ دخل نہیں اس لیے اس میں قیاس بھی نہیں چلتا کہ مقصود اس سے تفہیم ہے سویہ مقصود جس طرح حاصل ہوجاوے اور فقہاء نے جو خطبہ کے متعلق لکھ دیا ہے کہ اس میں احکام کی تعلیم کی جاوے وہ حکمت ہے علت نہیں خود عید کے متعلق روایات میں تصریح ہے کہ زائد مقصود کے لیے آپ نے ممبر سے نزول فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ خطبہ کا معاملہ نہیں فرمایا ۔ بہشتی زیور پراعتراضات کا منشاء معاصرت ہے : (ملفوظ 327) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل تو حق نا حق کو دیکھا ہی نہیں جاتا بس یہ دیکھتے ہیں کہ یہ لکھا کس نے بیان کیا کس نے بس پھراگرلکھنے والا کہنے والا ان کے مزاق کے خلاف ہوا تو چاہے اس کا قول ہی ہو مگر اس کے رد کی فکر میں لگ جاتے ہیں اب بہشتی زیور ہی ہے اس میں تمام فقہ ہی کے مسائل ہیں جوفقہ کی کتابوں سے لکھتے گئے ہیں مگر چونکہ میری طرف منسوب ہیں اس لئے وہ قابل رو ہیں یہ دین ہے یہ ایسا ہی ہے کہ ایک شخص نے اپنے حقیقی بھائی کو ماں کی گالی دی کسی نے کہا کہ اس کی ماں اور تیری ماں دو تھوڑا ہی ہیں جواب میں کہتا ہے کہ اس میں دو حثیتیں ہیں ایک اس کی ماں ہونے کی اور ایک میری ماں ہونے کی اس کی ہونے کی حیثیت سے وہ ایسی ویسی ہے یہی حال ان حاسدین کا ہے معاصرت بھی بڑے غضب کی چیز ہے اس میں خواہ مخواہ بھی حسد ہوتا ہے اس حسد سے اس کوبھی مثال کا قصہ یہ ہے کہ ایام عذر میں ایک سپاہی میدان جنگ میں زخمی ہوگیا تھا یہ حکایت ماموں امداد علی صاحب نے مجھ سے بیان کی تھی وہ زخم کی وجہ سے نقل و حرکت نہ کرسکتا تھا شام قریب ہونے کو تھی خیال ہوا کہ رات تنہائی میں کیسے گذرے گی دیکھا کہ ایک لالہ جی چلے جارہے ہیں آوازدی لالہ جی گھبرائے اس لئے کہ اور لاشیں بھی مردہ پڑیں تھیں وہ سمجھا کہ کوئی مردہ بھوت ہوکر پکارا رہا ہے اس نے کہا کہ گھبراؤ نہیں میں زندہ ہوں زخموں کی وجہ سے نقل وحرکت نہیں کرسکتا اور نہ آئندہ زندگی کی توقع ہے میری کمرسے روپیوں کی ہمیانی بندھی ہے یہ