ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
معلوم ہوتاہے حضرت سید صاحب کو حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب نے تصور شیخ کا حکم دیا عرض کیا کہ حضرت اس سے معاف فرما ویں کیوں کہ اس شرکت کا شائبہ ہے حضرت شاہ صاحب نے یہ شعر پڑھا سجے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بے خبر نبودز راہ رسم منزلہا ( اگر شیخ کامل کوئی حکم ایسا دے جو بظاہر خلاف طریقت ہوتب بھی اس پر عمل کر لیجیو کیوں کہ جوراستہ کو طے کرچکا ہے وہ اس راستہ کے نشیب و فراز سے واقف ہوتا ہے ) سید صاحب نے عرض کیا کہ اگر اس شعر میں تاویل نہ کی جائے تو اس میں معصیت کا ذکر ہے سو کسی معصیت کا حکم فرمادیجئے میں کرنے کو تیار ہوں مگر شرک سے معاف فرمایئے حضرت شاہ صاحب نے اٹھ کر سینے سے لگایا اور فرمایا کہ ایسا ہی ہونا چاہئے میں یہ چاہتا ہوں کہ راہ ولایت سے سلوک طے کراؤں مگر اب راہ نبوت سے کراوں گا تمہارا مزاج اور قسم کا ہے غرض کہ تیرہ دن میں سلوک طے کرادیا اور یہ تو الوان کا اختلاف ہے باقی اصل چیز عشق ومحبت ہے خواہ محبت عقلی ہو یا طبعی ہو آگے اس میں گفتگو ہے کہ ان میں افضل کو ن ہے مگر واقع بات یہ ہے کہ جس کو جو عطا ہوجائے اس کے لئے وہی افضل ہے یہ محبت ہی کا کرشمہ ہے کہ سوائے محبوب کے سب کو فنا کر دیتی ہے اسی کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں عشق آں شعلہ است کو چوں برفروخت ہرکہ جز معشوق باقی جملہ سوخت عشق کی آتش ہے ایسی بدبلا دے سوائے معشوق کے سب کو جلا دیکھیئے جب ایک ناچیز مخلوق لیلیٰ کے عشق میں مجنوں کی حالت ہوئی جو مشہور ہے تو کیا مولا کا عشق اس سے کم ہے اسی کو مولانا فرماتے ہیں عشق مولا کے کم از لیلی بود گوئے گشتن بہر او اولی بود سلوک تعویز سے طے ہوتا : ( ملفوظ 23) ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں جس وقت تھا نہ بھون آنے کے ارادہ سے چلا تو ایک جج صاحب جو ذاکر شاغل ہیں مجھ سے کہنے لگے آپ وہاں جارہے ہیں واپس میں ایک تعویذ حضرات سے لیتے آیئے گا جس سے اللہ کی محبت پیدا ہو اور سلوک ہو