ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
بننا ہے اتحاد اس وقت ہوتا ہے جب کہ دونوں قومیں مساوی ہوں خدا معلوم مسلمان ہندوؤں کے اس قدر گرویدہ کیوں ہوئے ہیں جن کی نظروں میں گذشتہ دور کے واقعات ہیں وہ کبھی اس قوم پر اعتماد نہیں کر سکتے مگر آج کل کے نوجوان اس قوم کی حقیقت سے بے خبر ہیں ان کی دوستی کا نتیجہ مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوا اور ہو گا مگر ان لوگوں کو کتنا ہی کوئی سمجھائے سنتا کون ہے میں سچ عرض کرتا ہوں کہ مسلمان آج کل بالکل اس کے مصداق بنے ہوئے ہیں کہ فر من المطر و وقف تحت المیزاب ( بارش کی بوندوں سے بھاگا ۔ اور پرنالہ کے نیچے کھڑا ہو گیا ) مگر کسی طرح آنکھیں نہیں کھلتیں ۔ اس کا کیا کوئی علاج کر سکتا ہے ۔ بخل مطلقا مذموم نہیں ( ملفوظ 448 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بدوں تھوڑے سے بخل کے انتظام ہو ہی نہیں سکتا اور اس میں مجھ کو چاہے کوئی کچھ ہی کہے مگر حقیقت یہ ہی ہے جو میں عرض کر رہا ہوں بخل مطلقا مذموم نہیں بلکہ کوئی ملکہ بھی برا نہیں مثلا بخل ہے طمع ہے حرص ہے حتی کہ شہوت تک بھی جب تک یہ سب اپنی حد پر ہیں مذموم نہیں فرماتے ہیں : اے بسا امساک کز انفاق بہ مال حق راجز بامر حق مدہ ( بہت سے بخل سخاوت سے بہتر ہیں ۔ اللہ کے مال کو بغیر حکم الہی خرچ مت کر ۔ 12 ) اور آج کل جس کا نام سخاوت رکھا ہے وہ کھلا اسراف ہے اور یہ لوگ سخی نہیں مسرف ہیں اور اسراف ملکہ نہیں کہ اس میں دو درجے ہوں فعل ہے یعنی معصیت میں خرچ کرنا اس کی محمودیت کا کون دعوی کر سکتا ہے اسی لئے اسراف میں تقسیم نہیں کہ اس کی دو قسمیں ہوں کہ ایک محمود ہے اور ایک مذموم جیسے بخل کی تقسیم ہو سکتی ہے ایک محمود ایک مذموم بخل کے معنی ہیں قلب کی تنگی سو تنگی کی تقسیم ہو سکتی ہے مثلا کسی نے روپیہ جمع کیا اور خرچ اس لئے نہیں کیا کہ اس سے مقصود بیوی بچوں کی راحت ہے آسائش ہے فراغت ہے اس کے محمود ہونے کا دعوی غلط نہیں ہو سکتا ۔ مگر مسرف جب معصیت میں صرف کرے گا تو اس میں کیا مصلحت اور کون سا اچھا مقصود سمجھا جا سکتا ہے نفس نے مکروفریب سے مسرف کو یہ سمجھا رکھا ہے کہ یہ استغناء ہے یہ نفس بری بلا ہے اس کا کچھ اعتبار نہیں اسی کو فرماتے ہیں