ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
رنج کا رفع کرنا اختیار نہیں: (ملفوظ 464) فلاں مدرسہ کی سرپرستی کا ذکر فرماتے ہوئے کہ ایک ممبر صاحب نے جو مولوی صاحب بھی ہیں ۔ ایک دل خراش اور فضولیات سے پر تحریر میرے پاس بھیجی مجھ کو اس سے دور رنج ہوئے ایک تویہ کہ ایک دم اس قدر برا انقلاب ہوگیا یہ لوگ تو اپنے پرانے بزرگوں کے دیکھنے والے ہیں ۔ ان میں یہ نیا رنگ کہاں سے آگیا دوسرے یہ تہذیب بھی تو کوئی چیز ہے اور جن کی وہ تحریر ہے ان سے ہمیشہ کے تعلقات ہیں اس کے بعد وہ مولوی صاحب یہاں آئے اور معذرت اور معافی چاہی میں نے صاف کہہ دیا کہ اگر معافی چاہئے سے یہ مقصود ہے کہ انتقام نہ لیا جاوے نہ دنیا میں نہ آخرت میں تو معافی ہے اور اگر یہ مقصود ہے کہ رنج نہ رہے تو رنج تھا اور ہے اور رہے گا ، میں ناراض تھا اور ہوں اور رہوں گا مجھ کو کشیدگی تھی اور ہے اور رہے گی جب تک آپ کا یہ دعوٰی مجھ کو معلوم رہے گا کہ آُپ کو مجھ سے محبت ہے تعلق ہے جس روز یہ ختم ہوجائے گا یہ سب عوارض بھی ختم ہوجاویں گے شکایت اپنوں ہی سے ہوا کرتی اور ویسے تو بریلی کے خاں صاحب نے مجھ کو ساری عمر گالیاں دیں واللہ ذرہ برابر بھی کبھی اثر نہیں ہوا اور یہ جوآج کل رسم ہے معافی کی اس کی حقیقت صرف عدم مواخذہ ہے باقی اثر ضرور رہتا ہے ۔ حضرت وحشی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ساری عمر صورت نہ دکھلانا حضرت وحشی نے حالت کفر میں حضوصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو قتل کیا تھا بعد میں اسلام لے آئے تھے تو کیا اسلام نے آنے پر معافی نہیں ہوگئی مگر حضوصلی اللہ علیہ وسلم کو رنج رہا اس سے بڑی بقاء اثر کی اورکیا دلیل ہوسکتی ہے بات یہ ہے کہ معافی تو اختیاری چیز ہے رنج کا رفع کرنا اختیارہ نہیں و صاحب جرم کے اختیار میں ہے کہ ایسے اسباب جمع کردے جس سے رنج جاتا رہے ۔ اکثر معلم کا طبقہ بیوقوف ہی ہوتا ہے (ملفوظ 465) فرمایا کہ ایک معلم صاحب کا خط آیا ہے اکثر یہ طبقہ ہوتا ہی ہے وقوف میں سالہا سال سے تجربہ کررہا ہوں ایک صاحب نے عرض کیا کہ ایسے ہوجاتے ہیں یا اس سلسلہ تعلیم میں آتے ہی ایسے ہیں فرمایا کہ ہوجاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں تکبرپیدا ہوجاتا ہے