ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
ابن حزم میں حزم نہیں : (ملفوظ 115 ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ابن حزم کے ذہن میں کجی توہے مگر ہیں بہت تیز باقی کجی توہے مگر ہیں بہت تیز باقی کجی پیٹ بھر کے ہے اس لئے کہ ان میں حزم (احتیاط) نہیں اسی طرح داود ظاہری ہیں ، ہیں توظاہری مگر ہیں ذہین اوریہ سب حضرات ذہانت کے ساتھ متد ین متورع (متقی ) بھی ہیں اس زمانہ میں ذہن کے ساتھ اس کا بھی قحط ہے ایسی ذہانت پرایک قصہ یاد آیا کہ ایک معقولی طالب علم سے کسی نے مسئلہ پوچھا کہ گلہری کنوئیں میں گرگئی اس کا کیا حکم ہے طالب علم صاحب کو مسئلہ تو معلوم نہ تھا مگر جہل کا اقرار کیسے کریں آپ نے معقولی تشقیقات شروع کیں کہ وہ جوگری ہے تو دوحال خالی نہیں یاتوکسی نے گرائی ہے یاخودی گری ہے ، آہستہ گری ہے یازورسے پھر یہ بھی دوحال سے خالی نہیں یا توکسی آدمی نے گرائی ہے یا جانور نے یاڈر کے خودگری تو ان شقوں میں سے کونسی صورت واقع ہوئی ہے بس اسی طرح سے ان کا جہل چھپ گیا آج کل ایسی ہی ذہانت اور تیزی کمال سمجھتی جاتی ہے ایک حکایت مولانا گنگوہی نے ایک مفتی کی بیان کی تھی ان کو عاجز کرنے کی غرض سے کسی نے ان سے مسئلہ پوچھا کہ حاملہ عورت سے نکاح کرنا کیسا ہے یہ بڑے بکھیڑے کا اور تفصیل طلب مسئلہ ہے انہوں نے اخفاء جہل کےلئے کیسا مزہ کا جواب دیا کہ یہ ایسا ہے جیسے گھیرادے دیا اور دریافت کیا گیا گھیراکہا کہ یہ ہی گھیرا جس کو گھیراکہتے ہیں چند بار کے سوال پربھی یہ ہی جواب دیتے رہے ایسا گھیرا دیا کہ خود بھی اس سے نہ نکلے بعضے ایسے بھی گذرے ہیں کہ قصدا تو تلبیس نہ کرتے تھے مگر علمی سرمایہ کی کمی سے بعضے امراض کے اثر سے بے اصول جواب ان سے صادر ہوجاتے تھے ممکن ہے کہ وہ معزور ہوں مگر عوام کو ضرر تو پہنچ جاتا ہے جس سے بچانا ضروری تھا اور بچانے کی باضابطہ صورت یہی ہے کہ ان کا ابطال کیا جاوے مگر بعض مقامات پراس سےفتنہ ہوجاتا ہے اس لئے ایسے موقع پرتحصیل مقصود کےلئے بڑی حکمت کی ضرورت ہے حضرت مولانا گنگوہی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی حکم بنایا تھا اس حکمت کا ایک واقعہ ہے مولانا کے ابتدائی وقت میں ایک بزرگ تھے مولوی سالاربخش صاحب وہ اس علاقہ میں بہت زیادہ بااثر تھے مگر مسائل بے اصل بیان کرتے تھے مولانا کی فراست قابل ملاحظہ ہے ایک شخص مولانا سے مسئلہ پوچھنے آیا اتفاق سے اس وقت مولوی سالاربخش صاحب گنگوہ آئے ہوئے