ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
ہونےکو تیار ہو اگرتم کواسلام میں کچھ شک ہوہم سے تحقیق کرلو اس نے کہا کہ میرے یہاں تعزیہ بنت ہے ( بنتا ہے ) پھرہم ہندو کا ہے کوہونے لگے میں نے اس کو تغریہ کی اجازت دیدی کیونکہ یہاں عارض کے سبب یہ بدعت وقایہ تھی کفرکی اور میری اس اجازت کا ماخذ ایک دوسرا واقعہ تھا کہ اجمیر میں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اہل تعزیہ کی نصرت کا فتویٰ دیدیا تھا قصہ یہ تھا کہ مولانا ایک زمانہ میں اجمیر تشریف تشریف رکھتے تھے عشرہ محرم کا زمانہ آیا اور غالبا ایک درخت کے نیچے سے تعزیہ کے گذرنے پرشیعی صاحبان اور ہندوں میں جھگڑا ہوا اب صورت یہ تھی کہ اگرتنہا شیعی صاحبان مقابلہ کریں توغلبہ کی امید نہ تھی اس لئے کہ ان کی جماعت قلیل تھی اورہندوں کی کثیر اس بناء پرشہر اجمیر کے عمائد مسلمان سنیوں نے مقامی علماء سے استفتا کیا کہ یہ صورت ہے ہم کوکیا کرنا چاہئے وہاں کے علماء نےجواب دیا کہ بدعت اور کفر کی باہم لڑائی ہے تم الگ رہنا چاہئے پھراہل شہر جمع ہوکر مولانا کے پاس آئے اورکل واقعہ عرض کیا اور کفر کی لڑائی ہے مگر یہ بھی تودیکھنا ہے کہ کیا ہندواس کو بدعت سمجھ کر مقابلہ کررہے ہیں یا اسلام سمجھ کرمقابلہ کررہے ہیں سویہ بدعت اور کفر کی لڑائی نہیں بلکہ اسلام اور کفر کی لڑائی ہے یہ شیعی صاحبان کی شکست نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی شکست ہے لہذا اہل اتغریہ کی نصرت کرنا چاہئے اسی طرح تعزیہ بدعت ضرورہے لیکن وہاں میں نے اس کووقایہ کفر سمجھ کراجازت دیدی ہمارے بزرگ بحمداللہ جامع بین الاضداد تھے جو محقق کی شان ہوتی ہے ۔ ایک جوگی کے حضرت سلطان نظام الدین دہلوی کے مرض سلب کرنے کی حکایت : (ملفوظ 203) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ پہلے مرتا ض لوگ بڑے بڑے طویل زمانہ تک حبس دم کرتے بوجہ ضعف قوی کرنے سے بھی ایسا نہیں ہوتا ، ایک فقیر نے حبس دم کا انتظار کیا تھا نا کامیاب رہا دماغ خراب ہوگیا اب قوی بوجہ کمزوری کے ایسی مشقتوں کی برداشت نہیں کرسکتے پہلے زمانہ میں توہندو بڑی بڑی محنتیں کرتے تھے اب ان میں بھی صاحب اثرنہیں گو ایسا اثر مطلوب نہیں حضرت سلطان نظام الدین قدس سرہ کے زمانہ میں ایک جوگی تھا اس نے یہ مشق کی تھی کہ مریض پرنظرڈال کرمرض سلب کرلیتا تھا ایک مرتبہ حضرت