ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
دوصدی سے ہندوستان کے بے نظیرعلماء : (ملفوظ 84 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اس دوصدی کے اندر جس شان کے علماء ہندوستان میں گزر ے ہیں انکےزمانہ میں ان کی مثال ممالک اسلامیہ میں بھی بہت کم ہے ایک عالم تھے مکہ معظمہ میں درس فرمایا کرتے تھے کہ قرآن نازل ہوا عرب میں اور پڑھا اس کو مصریوں نے اور لکھا رومیوں نے اور سمجھا ہندیوں نے نیزسیاح لوگوں سے معلوم ہو ا کہ اسلام کو جو اچھی حالت ہندوستان میں ہے وہ ممالک اسلامیہ میں بھی نہیں اس کا راز یہ سمجھ میں آیا کہ وہاں کے لوگ اسلامی سلطنت ہونے کی بناء پربے فکر ہیں اور ہندوستان میں ہرمسلمان چاہے وہ عوام میں سے ہو یاوہ علماء ہوں اپنے کو ذمہ دار سمجھتے ہیں کہ اگرہم نے خبرنہ لی تو اور کون سرپرست ہے جوخبرگیری کرے گا اسی طرح دنیوی امور میں بھی بلادیورپ کوکوئی خاص امتیاز نہیں حضرت مولانا دیوبندی رحمہ اللہ جب مالٹا سے تشریف لائے تو ظرافت سے فرمایا کہ جب تک یورپ نہ دیکھا تھا توخیال ہوتا تھا کہ وہاں کا آسمان کم ازکم سونے کا ہوگا اورزمین چاندی کی مگردیکھنے سے معلوم ہوا کہ وہاں بھی ایساہی آسمان اور زمین ہے مالٹا کے متعلق ایک اور لطیف بات فرمائی کہ جب تک مالٹا میں رہے پاؤں توبندتھے مگر زبان کھلی ہوئی تھی اور ہندوستان میں آکر پاؤں توکھل گئے مگرزبان بندہوگئی ۔ حضرت مولانا کی عجیب ہی ذات تھی حضرت کوبہت ہی کم لوگوں نے پہچانا مدعیوں کا محض دعویٰ ہی دعویٰ ہے کہ ہم متبع ہیں تم تو محض اپنے اعتراض کے متبع ہوتم بڑے فخر سے کہتے ہوکہ حضرت اسیرمالٹا تھے ہم تویہ کہتے ہیں کہ امیرمالٹا تھے تم کہتے ہوکہ شیخ الہند تھے ہم کہتے ہیں کہ شیخ العالم تھے اب بتلاؤ مولانا کا زیادہ معتقد کون ہے جس چیز کو ہم ذریعہ نجات سمجھتے ہیں یعنی اپنے بزرگوں سے تعلق بحمد اللہ وہ حقیقت میں ہم کو حاصل ہے تمہارے زبانی دعوے سے کیا ہوتا ہے اگراجتہادی اختلاف سے تم ہمارے اعتقاد کا انکار بھی کروتم ہم دلگیرنہیں ہوتے جیسے کیمیاگر کبھی دلگیرنہیں ہوتا اگرچہ ساری دنیا اس کو جھٹلائے وہ کہتاہے کہ الحمداللہ میں کیمیائی گرہوں یہ سب جھوٹے ہیں حضرت مولانا نے مجھ سے اختلاف میں بھی اتفاق رکھا ہے یہ کتنی مسرت کی بات ہے ۔ بڑوں کی بدفہمی کی شکایت : (ملفوظ 85 ) ایک خط کے جواب کے سلسلہ میں فرمایا کہ اگرچھوٹا بچہ باپ کی ڈاڑھی بھی نوچنے لگے توکوئی رنج نہیں ہوتا اس لئے بچہ ہے اس کو کیا خبرہے عقل ہے بلکہ الٹا باپ اس کے