ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
ایک محقق ، ایک غیر محقق شیخ کے لئے محق کے ساتھ محقق ہونے کی بھی ضرورت ہے ۔ رسمی پیروں کا مقصود جاہ و مال طلبی : ( ملفوظ 434 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہ آج کل رسمی پیر جن کا مقصود جاہ طلبی اور مال طلبی کے سوا کچھ نہیں باوجود بیحد مداہنت کے یہ بھی مصیبت ہی میں رہتے ہیں ایک پیر صاحب یہاں پر آئے تھے کہ میں قرضدار ہوں کہیں کسی کو کچھ لکھ دو وجہ قرض کی یہ بیان کی کہ مرید کھا گئے اور دیا کچھ نہیں یہ انجام ہے لنگرخانہ کا میں تو کہا کرتا ہوں کہ آدمی لنگر دینے کی وجہ سے لنگڑ دین ہو جاتا ہے اور قرض بھی چاہتے تھے تین چار ہزار کی رقم میں نے پوچھا ادا کہاں سے کرو گے ۔ کہتے ہیں کہ مریدوں سے وصول کر کے دے دوں گا بے چارے پھر بھی مریدوں کے معتقد تھے ان کے نہ دینے پر بھی اعتقاد نہیں ٹوٹا خلوص ہو تو ایسا ہو چاہے فلوس نہ ہو ۔ ہمارے حضرت حاجی صاحب فن طریقت کے امام تھے ( ملفوظ 435 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اپنے بزرگوں کی دعا کی برکت سے صحیح اصول دل میں پیدا فرما دیئے باقی آگے اور کچھ آتا جاتا نہیں کتابیں پڑھیں وہ بھی بے تکی سبق میں کبھی حاضر ہوا کبھی نہیں مگر اللہ کا فضل ہے کہ باوجود ان سب کوتاہیوں کے اساتذہ ایسے مل گئے کہ ان حضرات کی تحقیقات مغز ہیں ۔ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسے استاد ملے جو میزان کل تھے کتابوں کے اور علوم کے اور اس کے بعد حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسے استاد ملے جو اس فن کے امام تھے مجتہد تھے مجدد تھے سب ان ہی کا صدقہ ہے جو ہم بیٹھ کر باتیں بگھارتے ہیں گو حضرت درسیات پڑھے ہوئے نہ تھے مگر علم جس چیز کا نام ہے وہ حضرت کو عطا ہوا تھا ۔ چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں حضرت حاجی صاحب کا علم کے سبب معتقد ہوں کسی نے اس کی حقیقت پوچھی تو مولانا نے فرمایا کہ ایک تو ہے ابصار ( نگاہ ) اور ایک ہے مبصرات ( دیکھی ہوئی چیزیں ) فرض کرو ایک شخص اپنے وطن ہی میں مقیم ہے اس نے سیاحت نہیں کی مگر نگاہ بہت تیز ہے جس چیز کو دیکھتا ہے صحیح دیکھتا ہے ۔ سو اس شخص کے مبصرات کم ہیں