ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
یا کہنا ہے تو پھراگرسمجھ میں بھی آجائے تب بھی نتیجہ وہی نکالا جائے گا جودل میں ہے دہلی میں مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب کے زمانہ میں ایک بدعتی مولوی تھے جوہرمسئلہ میں شاہ صاحب سے اختلاف کرتے تھے شاہ صاحب میراں کے بکرے کو حرام فرماتے تھے وہ جائز کہتے تھے ایک سمجھدار شخص نے دیکھا کہ دومولویوں میں اختلاف ہے اور اختلاف بھی حلت اور حرمت کا اس نے نہایت دانش مندی سے دونوں کا اس طرح امتحان لیا کہ ایک روز دونوں کی دعوت کی جب کھانا دسترخوان پرآگیا صاحب خانہ نے دونوں جماعتوں سے عرض کیا کہ یہ جودسترخواں پرسالن ہے یہ میں نے میران کے نام کا بکراکیاتھا یہ اس کا گوشت ہے اب کھانے نہ کھانے کا اختیارہے شاہ صاحب نے توسن کرہاتھ کھینچ لیا مگر تماشا یہ ہے کہ ان مولوی صاحب نے بھی ہاتھ کھینچ لیا اس شخص سے پوچھا کہ آپ کیوں نہیں کھاتے آپ کے نزدیک توحلال ہے اس وقت انہوں نے فرمایا کہ سمجھتا تو میں بھی حرام ہی ہو ں مگرشاہ صاحب کی ضد میں حلال کہہ دیتا ہوں تب اس شخص نے کہا کہ مجھ کو تو امتحان کرنا تھا باقی واقع میں یہ میراں کے نام کا نہیں ہے کھائیے مگر صاحب یہ بھی اس وقت کے لوگ تھے اب اگرایسی بات ہوتو کھابھی جائیں ایسے بددین ہیں ایک مرتبہ ایک بدعتی مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ جس چیز کو مولانا شہید حرام کہیں گے میں حلال کہوں گا اور بالعکس مولانا نے فرمایا کہ میں توماں سے نکاح کرنے کو حرام کہتاہوں وہ اس کو حلال کہیں اورمیں کلمہ ایمان کو حلال کہتا ہوں وہ اس کو حرام کہیں بس رہ گئے کوئی جواب بن بہ پڑا مدتوں کے بعد ان سب کی وفات کے بعد ان بدعتی مولوی صاحب کے ایک شاگرد نے جواب دیا کہ ہمارے مولوی صاحب کا اس فرمانے سے مقصود یہ تھا کہ جس کوکیوں نہ سوجھا ۔ غرض یہ حالت ہے ان لوگوں کے بغض وعناد کی اہل حق کے ساتھ بہشتی زیور کے مسائل پراعتراض کے متعلق ایک واقعہ یاد آیا ۔ میں ایک مرتبہ سہارنپور گیا مدرسہ میں بیٹھا ہواتھا اورحضرات بھی وہاں تشریف لائے میرے پاس اس کے قبل ایک خط آیا تھا کہ بہشتی زیور کے فلاں مسئلہ کے متعلق جواب کے لئے آمادہ رہنا وہ مسئلہ شرقی کا غیربیہ سے بواسطہ نکاح کرنے کا تھا میں قرائن سے سمجھ گیا کہ یہ وہی شخص ہیں جوبہشتی زیورپراعتراض کریں گے اس وقت بہشتی زیور پراعتراضات کی بھرمارہورہی تھی آکر پاس بیٹھے اور