ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
باتوں میں لگو ۔ خاتمہ کے خطرہ پرایک بزرگی کی ایک حکایت یا د آئی کہ ان سے کسی کنجڑن نے سوال کیا کہ ملاجی تمہاری داڑھی اچھی ہے یا میرے بکرے کی دم کہا کہ کبھی جواب دیے دیں گے ۔ ساری عمر گذر گئی مگر اس کنجڑن کوکوئی جواب نہیں دیا جب مرنے لگے تو وصیت کی کہ میرا جنازہ اس کنجڑن کے دوکان کے سامنے سے نکالنا جب جنازہ وہاں پہنچا اس نے کہا کہ مرگئے میرے سوال کا جواب نہ دیا بس منہ کھول دیا اور منہ پرہاتھ پھیر کر کہا کہ الحمداللہ آج میری داڑھی اچھی ہے تیرے بکرے کی دم سے اسی لئے کہ ایمان پر خاتمہ ہوگیا ۔ اب یہ حکایت صحیح ہو یا غلط مگر مثال اچھی ہے اور مثال دلیل نہیں ہوتی محض تو ضیح کے لئے ہوتی ہے غرض خاتمہ کے بعد پتہ لگتا ہے باقی اس سے پہلے تو مجدد صاحب کے ارشاد عمل ہونا چاہئے انہوں نے فرمایا ہے کہ مومن مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے کو کافر فرنگ سے بدتر نہ سمجھے مطلب یہ کہ کیا خبرکیا ہوجائے اور کیا خبرکیا ہوجائے اور کیا معاملہ پیش آئے کس کو خبر ہے خلاصہ یہ ہے کہ فضول سوالوں میں پڑنا وقت کا ضائع کرنا ہے ہمارے بزرگ اس قسم کی گفتگو اور مباحثوں مناظروں کو پسند نہ فرماتے تھے خود کام لگے رہتے تھے اور دوسروں کو لگائے رکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم صاحب دہلی تشریف رکھتے تھے اور ان کے ساتھ مولانا احمد حسن صاحب امروہی اورامیرشاہ خان صاحب بھی تھے شب کو جب سونے کے لئے لیٹے تو ان دونوں نے اپنی چارپائی ذرا الگ کو بچھالی اور باتیں کرنے لگے امیر شاہ خان صاحب نے مولوی صاحب سے کہا کہ صبح کی نماز ایک برج والی مسجد میں چل کرپڑھیں گے سنا ہے وہاں کے امام قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں مولوی صاحب نے کہا ک ارے پٹھان جاہل (آپس میں بے تکلفی بہت تھی ) ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ تو ہمارے مولانا کی تکفیر کرتا ہے مولانا نے سن لیا اورزرو سے فرمایا احمد حسن میں تو سمجھا تھا تو لکھ پڑھ گیا ہے مگر جاہل ہی رہا پھر دوسروں کو جاہل کہتا ہے ارے کیا قاسم کی تکفیر سے وہ قابل امامت نہیں رہا میں تو اس سے اس کی دینداری کا معتقد ہوگیا اس نے میری کوئی ایسی ہی بات سنی ہوگی ۔ جس کی وجہ سے میری تکفیر واجب تھی گوروایت غلط پہنچی ہوتو یہ راوی پرالزام ہے تو اس کا سبب دین ہی ہے اب میں خود اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا ۔ غرضکہ صبح کی نماز مولانا نے اس کے پیچھے پڑھی یہ ہے ہمارے بزرگوں کا مذاق جن کی کوئی نظیر