ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
سیب کو جوش دیتے ہیں مابعد اس کواتارکرٹھنڈا ہوجانے کے بعد اس کو پھر چاقو کی نوک سے کوچتے ہیں تاکہ قوام اس کے اندر اثر کرسکے پھرقوام تیار کرکے اس میں کوڈالتے ہیں اور پھر کئی روز ایک مرتبان میں بند رکھتے ہیں رکھتے ہیں تب جاکر یہ مربا اس قابل ہوتا ہے کہ جس غرض سے طبیب نے اس کو بتلایا ہے اس کے لئے مفید ہوسکے تواس طرح مربا بن کرپھر کہیں طبیعت کامربی بننے کے قابل ہوسکتا ہے اگرہرکوچنے پروہ سیب ہاتھ سے نکال کربھاگنے لگے اور اس کی برداشت نہ کرسکے توبس بن چکا مربا اسی طرح اگرشیخ کی ہرڈانٹ اور ڈپٹ پرطالب کے دل میں کدورت پیدا ہو اور برداشت نہ کرسکے توبن چکے مربی ایک حکایت حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نے مثنوی میں بیان فرمائی ہے اس میں ایک شخص کا اپنی کمرپرشیر کی تصویر گود وانے کے لئے جانا اورہرسوئی کے کوچنے پر یہ کہنا کہ یہ کیا بناتا ہے اور اس کا بتلانا کہ یہ کان بناتا ہوں سربناہوں پیٹ بناتا ہوں دم بناتا ہوں اوراس کا یہ کہنا کہ یہ شیرکا نقش کوئی سنے کا تھوڑا ہی یا بے دم کا شیرنہیں ہوتا اور اس پراس گودنے والے کا سوئی ہاتھ سے پھینک کریہ کہنا مفصلا مذکور ہے شیر بے گوش وسرواشکم کہ دید ایں چنیں شیرے خدا ہم نافرید گربہر زخمے تو پر کینہ شوی، پس کجا بے صیقل آئینہ شوی چوں نہ داری طاقت سوزن زون پس تواز شیر ژیاں ہم دم مزن تو صاحب اصلاح تواصلاح ہی کے طریق سے ہوسکتی ہے بدون طریقہ تو کوئی ادنی سے ادنی کام بھی انجام کونہٰیں پہنچ سکتا اور دوسرے پیروں کے یہاں جوان لوگون کی آؤبھگت ہے ان میں بعض کی نیت توصالح ہوتی ہے مزاحا فرمایا کہ اور بعض کی خسرہوتی ہے جن کی صالح ہوتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ ہم سے لگے بندھے رہیں کہیں کسی بدعتی وغیرہ کے ہاتھ میں جاکر نہ پھنس جائیں خیر اپنا مزاق ہے مجھ کو تواس سے غیرت آتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ دین ان کامحتاج ہے دین ان کا طالب ہے اور یہ اس کے مطلوب ہیں اورمیں سب کومشورہ نہیں دیتا کہ سب اپنے اخلاق ایسے بنالیں مگر مجھے معاف رکھیں اور جن کی نیت خسرہوتی ہے اسی کا منشا نہایت ہی مزموم ہے بلکہ نہایت ہی مردود وہ یہ کہ اگر ہم نے ان کے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کیا تویہ غیر معتقد ہوجائیں گے اور جوخدمت کرتے ہیں وہ نہ کریں گے پس یہ لوگ تو ہروقت اینٹھنے میں رہتے ہیں اورپیروں کی طرف سے ان کا تملق ہوتا ہے سو یہ درجہ تو نہایت براہے ہمارے حیدرآبادی