الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
ادھر خدائی نظام یہ ہواکہ فراغت کے فوراً بعد فقیہ عصر ، مجاہدملت، قاضی القضاۃ استاذی، مربی حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام القاسمی رحمہ اللہ کے ایماء پر بندے کا تقرر ایک عظیم دینی وعصری دانش گاہ (جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا) میں ہوا،اور ایک دور اندیش ، مردم شناس، خدا رسیدہ اور فیاض وقت ، مہتمم ورئیس کی صحبتوں، شفقتوں اور عنایتوں میں عمر عزیز کے لیل ونہار گذنے لگے؛ اس سے میری مراد رئیس الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم کی ذات گرامی ہے۔ آپ ہی کی تحریک ومہمیز پر بندے نے عا لمیت کے درجۂ سوم ، چہارم، پنجم،ششم اور ہفتم کے ذہین اور ہوشیار طلبہ کو منتخب کرکے خارجی وقت میں ان پر محنت شروع کی؛ جس کا طریقۂ کار یہ تھا کہ ایک اصول یا قاعدہ تختۂ سیاہ پر لکھ دیا جاتا اور طلباء عزیز کو تاکید کی جاتی کہ آپ اسے زبانی یاد کرلیں اور کسی ایک مسئلۂ فقہیہ سے تطبیق دے کر اپنی کاپی میں لکھ لائیں۔ الحمد للہ اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہورہے تھے، لیکن بعض عوارض کی وجہ سے یہ سلسلہ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا،پھر تدریسی مصروفیتوں کے ساتھ ساتھ عائلی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی کندھوں پر آگیا، جس کی وجہ سے دوبارہ اس کام کو پورا کرنے کا موقع نہیں مل سکا ۔ پھردو بارہ جب اسی جذبہ نے انگڑائی لی تو سوچاکہ ممکن ہے یہی وقت خدا کی طرف سے اس کام کی تکمیل کے لئے متعیّن ہو، اس لئے اس میںدیر نہیں کرنی چاہئے، کام کا ایک خاکہ اپنے ذہن میں متعین کیا کہ ایک اصول ، اس کا بہترین ترجمہ اور کسی مسئلۂ فقہیہ پر اس کی تطبیق ہو،اور اکتادینے والی طوالت ، فہم مطالب میں مخل ایجاز واختصار سے کلی اجتناب ہو۔ چنانچہ مشورتاً اپنے اس عملی، ذہنی خاکہ کو جامعہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا رضوان الدین صاحب مدظلہ العالی کے سامنے پیش کیا، آں محترم نے نہ صرف تصویب بلکہ حوصلہ افزائی فرمائی، اور جلد از جلد اس کا م کی تکمیل کی ترغیب بھی دی، فجزاہ اللہ خیر الجزاء ۔