الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
اور پوری قوت کے ساتھ ان سے دور رہنا ،اسلامی تعلیمات کا، اہم ترین جز ہے،جو آیت قرآنی ’’لاتسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم ‘‘ سے مفہوم ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی شخص کو محض اپنے ذاتی مطالعہ و تجربہ کی بناء پر علاج کرنے کی اجازت نہ ہوگی، اور اگر اس نے عدم جواز کے بعد بھی علاج کیا اور اس کے علاج سے مریض کو غیر معمولی ضرر پہنچا،یا ہلاک ہوا، تو اس پر تاوان لازم ہوگا۔ ’’ کماقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تطبب ولم یعلم منہ طب فہو ضامن‘‘ (ابوداؤد شریف ۔ص؍۱۰۸) ایسا شخص قابل تعزیر بھی ہوگا کیوں کہ ہر ایسے فعل کا ارتکاب جس سے مصلحت عامہ، یا نظام عام کو، ضرر لاحق ہو، باعث تعزیر ہے۔ (اسلامی قوانین ص؍۳۹۸) (۲) جس ڈاکٹر کو قانوناً علاج ومعالجہ کی اجازت ہے، اس نے اگر کسی مریض کا علاج کیا، لیکن اس نے طبی احتیاطیں ملحوظ نہ رکھیں، مثلاً بعض ضروری جانچیں نہیں کروائیں، یا مریض کی پوری دیکھ ریکھ نہیں کی، اور اس علاج کے باوجود مریض فوت ہوگیا یا اس کا کوئی عضو ضائع ہوگیا، تو ڈاکٹر مریض کو پہنچنے والے نقصان، یا اس کی جان کے تاوان کا ضامن ہوگا، اس لئے اگر ہم ڈاکٹروں کی بد احتیاطی، غفلت و کوتاہی پر تاوان واجب نہیں کریں گے، تو ضرر خاص کی خاطر ضرر عام کو نظر انداز کرنا لازم آئے گا، جب کہ قاعدہ فقہیہ یہ ہے کہ ضررِ عام کو دفع کرنے کے لئے ضرر خاص کو برداشت کیا جائے گا۔ ’’ یُتَحَمَّلُ الضرر الخاص لدفع ضرر عام‘‘۔ (الأشباہ والنظائر:ص۱۴۱) (۳) اگر ڈاکٹر کی رائے میں زیر علاج مریض کا،آپریشن ضروری ہے، اور ڈاکٹر نے مریض یا اس کے قریبی اعزہ سے اجازت لئے بغیر آپریشن کرڈالا، اور آپریشن کامیاب ہونے کے بجائے مہلک ثابت ہوا، اور مریض فوت ہوگیا، یا اس کا آپریشن شدہ عضو بیکار ہوگیا، تو ایسی صورت میں ڈاکٹر مریض کو پہنچے والے نقصان کا ضامن ہوگا، گر چہ وہ اس آپریشن کا مجاز ہو، اور تجربہ رکھتا ہو، اس لئے کہ مریض کے مرض کے علاج و معالجہ کا اختیار خود اسے یا اس کے اعزہ کو حاصل ہے۔ جب ڈاکٹر نے خود مریض یا اس کے اولیاء کی