ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
تووہ غور کرلے کہ معقول ہے یا نہ معقول اور علاج قابل اصلاح ہوتو اصلاح کردے اورجب سبب ہی نہ معلوم ہوتو کس بات کی اصلاح کرے مگر مرض یہ ہوگیا ہے کہ اصل بات کو بلی کے گوہ کی طرح چھپاتے ہو تو کس بات کی اصلاح کیسے ہو ۔ شیخ اور بزرگ تو بیچارے کیا چیز ہیں اور کس شمار میں ہیں انبیاء علیہم السلام ایسے شخص کی نہ اصلاح فرما سکے چنانچہ ابوطالب اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ہی واقعہ اس کی دلیل کے لئے کافی ہے آخرت وقت تک حضور نے کوشش فرمائی کہ ابوطالب کلمہ پڑھ لیں مگر جو نتیجہ ہوا اظہر من الشمس ہے تو اصلی شرط طلب ہے اور جب یہ نہ ہوتو اوپر اوپر باتیں بنانے سے اس طریق میں اصلاح کا کام نہیں چل سکتا جب تک سچی بات ظاہر نہ کرے ۔ سچی بات کو دل قبول کرلیتا ہے قرار پکڑجاتا ہے باقی کتنی ہی باتیں بنادے نہ دل قبول کرتا ہے اور نہ قرار پکڑتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ مصلح کسی وقت یہ سمجھ کرکہ جب اس کو ہی اپنی اصلاح کا اہتما م نہیں اور فکر نہیں تو مرنے دوسسرے کو وہ تسامح اختیار کرلیتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہی ہے کہ جب تک اصلی بات نہ کہی جاوے اصلاح غیرممکن ہے ۔ حضرت یہ اصلاح کا پیشہ بھی بڑا ہی نازک ہے اور مجھ کو بھی اپنے طریق اصلاح پرناز نہیں اس لئے کہ میں بھی بشر ہوں علمی غلطی بھی ہوسکتی ہے عملی غلطی بھی ہوسکتی ہے کرتا میں ضرور ہوں اس کام کو مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں حق تعالٰی اسی طرح مجھ سے نہ مطالبہ فرمالیں مگر ان کے فضل پربیڑا ہے اور بھروسہ ہے میں آپ سے بقسم عرض کرتا ہوں کہ عین مواخذہ اور مطالبہ کے وقت مجھ کو یہ استحضار رہتا ہے کہ اس کی یہ باتیں اور یہ خود خدا کے نزدیک مقبول ہو اور اس استحضار رہتا ہے کہ اس کی یہ باتیں اور یہ خود خدا کے نزدیک مقبول ہو اور اس استحضاء کے سبب میرا یہ سب کہنا سننا تحقیر سے نہیں ہوتا محض اصلاح کی غرض سے ہوتا ہے ورنہ عقیدہ سے ہرطرح پر میں آنے والوں کو اپنے سے افضل سمجھتا ہوں اور یہ خیال کرتا ہوں کہ ممکن ہے کہ یہ ہی حضرات میری نجات کا ذریعہ بن جائیں حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر پیر مرحوم ہوگا تو مرید کو جنت میں لے جائے گا ۔ تو مجھ کو سب آنے والوں سے یہی توقع ہوتی ہے مگر پھر بھی خدمت اصلاح کو ضروری سمجھتا ہوں اور اسی سے بد نام ہوتا ہوں مگر بجز جبر کے کیا ہوسکتا ہے ۔