ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
یہی ہے کہ جو منکر ہے وہ خود سوال کرے اوراس کی یہ صورت ہے کہ اول اس مسئول عنہ کی تعیین لکھے اوراس کے ساتھ سائل اس کا جو مفہوم خود سمجھا ہے اس کی تفسیر کرے اس کے بعد اپنا عقیدہ اس کے خلاف ساتھ ظاہر کرے اور سب کے بعد اپنے دسخط کرے تب فتوٰی سہولت سے ہوسکتا ہے اور جب تک سوال منقح نہ ہو فتوٰی ہوسکتا ، اس قسم کا فتویٰ بلا تحقیق دنیا ایسا ہے جیسے کسی کے قتل کا حکم کرنا یہاں جان میں تصرف ہے وہاں ایمان میں تصرف ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ سب اصطلاحات ہیں سہولت تعبیر کے لئے استعمال کی جاتی ہیں حقیقت سب کی بایں معنی متحد ہے کہ ان میں تنافی نہیں ایک ہی ہیں ۔ یہی غلطی ہے کہ ان کو الگ الگ بمعنی تنافی سمجھ لیا گیا جیسے ایک شخص ہے اس کو مولوی بھی کہتے ہیں قاری بھی کہتے ہیں حافظ بھی کہتے ہیں حاجی بھی کہتے ہیں تو یہ چیزیں صفات متبائنہ تھوڑا ہی ہیں ایک ہی شخص میں سب جمع ہیں اور باہم نسبت عموم وخصوص کی ہے ۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ مقصود اعظم تو شریعت ہی ہے فرمایا کہ خود ایک ہی چیز ہے یعنی شریعت ۔ اس کے مقابل کوئی چیز نہیں جس کی وجہ سے اعظم کہا جاوے جس کا حاصل عمل کا خالص کرنا بے شیخ اس کی تدابیر کی تعلیم کرتا ہے ان تدابیر کا نام طریقت ہے پھر اس کی برکت سے جو علوم منکشف ہوتے ہیں وہ حقیقت ہیں اوران ہی کے حقائق میں بعض کے انکشاف کا نام معرفت ہے باقی اور جوکچھ ہے مراقبہ مکاشفہ ذکر وشغل سب اسی مقصود کے معین اورمتمم ہیں اور اصل وہی ایک چیز ہے اور یہ سب کرنے کے کام ہیں مگر آج کل بجائے کچھ کرنے کے بڑا شغل دوسری کی عیب جوئی یا فضول تحقیقات رہ گئی ہیں لیکن دوسرے پرتو فتوٰی جب لگاوے جب اپنے سے فراغت حاصل کرلی ہو ایک شخص مدقوق ( مرض دق میں مبتلا ) ہے اور ایک پڑوس میں مزکوم ( جس کوزکام ہورہا ) ہے اب یہ دق والا زکام کا نسخہ تلاش کرتا پھرتا ہے اپنی فکر نہیں خبر نہیں لیتا ۔ مولانا نعیم صاحب سے کسی شخص نے سوال کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں اور حضرت معاویہر رضی اللہ عنہ میں جو جنگ ہوئی کون حق پرتھا مولانا نے دریافت کیا کہ یہ کس نے سوال کیا ہے عرض کیا کہ فلاں حافظ صاحب نے دریافت فرمایا کہ وہ کام کرتے ہیں عرض کیا جوتے بیچتے ہیں فرمایا