ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
نے کہا کہ اسی زبان سے کلمہ شریف پڑھتے ہو جب ایسی زبان نہیں تو اس سے کلمہ شریف بھی نہ پڑھو یہ شیطان نے راہ مارر رکھی ہے مثلا اسی شخص کو برکات دعا سے محروم کررکھا ہے ۔ صاحبو ! جتنا عمل بھی ہورہا ہے وہ ناقص ہی سہی کیا ہم اس کے مستحق تھے ظاہر ہے ہمارا کیا استحقاق ہوتا کیا استحقاق استحقاق لئے پھرتے ہیں یہ سب ان کا فضل اور عطاء ہے اور استحقاق تو کیا ہوتا ہم نے تو کچھ مانگا بھی نہ تھا خود فضل فرمادیا اسی کو کہتے ہیں : ما بنودیم و تقاضا ماں نبود ٭ لطف تو ناگفتہ نامی شنود ( ہم موجود نہیں تھے اور نہ ہمارے وجود کا کوئی تقاضا تھا مگر اس وقت بھی حق تعالٰی کا لطف ہماری التجاؤں کو ہماری دوخواست کے سن رہا تھا ) بس جتنا دیا غنیمت ہے ہمارا حق ہی کیا تھا ارے کمال نہیں تو ناقص نماز کی تو توفیق دیدی دوسروں کو تو ناقص کی بھی توفیق نہیں ان سے تو پھراچھے حال میں رکھا اب رہ گیا نقص سواس کا علاج اللھم اغفرلی ہے الحمد اللہ کامل تعلیم پیش کردی گئی اور یہ طفیل اس کا ہے کہ ہم سب خادمان دین کے خادم ہیں چنانچہ اللہ تعالٰی کا شکر ہے کہ ہماری نظر فقہ اور تصوف دونوں پرہے دونوں کو ملاکر عمل اور تعلیم کرتے ہیں اسی لیے کس جگہ پریشانی نہیں دشواری نہیں ۔ جو لوگ کمال کی فکر میں پڑجاتے ہیں ان کو بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر اس ناقص سے بھی محروم ہوجاتے ہیں اس کامل یا ناقص پرایک واقعہ یاد آیا ۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کے پاس کہیں سے کھانا آیا آپ نے اپنے ایک خلیفہ کے پاس بھیج دیا انہوں نے عرض کیا حضرت تحقیق بھی فرمالیا ہے حرام ومشتبہ تونہیں فرمایا کہ جا بڑا نکلا ہے حلال وحرام والا ۔ بھوکا مرجائے گا کھالیا کر جوخدا دیا کرے ۔ مطلب یہ کہ بلا وجہ اتنی تفشیش اور تحقیق کے پیچھے نہ پڑے ۔ ایک شخص تھے یہاں پر ان کی ایک شخص نے دعوت کی جب کھانے بیٹھے تب تفشیش شروع کی کہ یہ چیز کہاں سے آئی یہ برتن کیسی کمائی کے ہیں ۔ وہ بے چارا پریشان بھلا پہلے ہی کیوں نہیں تحقیق فرمالی تھی کچھ نہیں یہ بھی ایک مرض ہے جو تکبر سے ناشی ہے ایسے ہی ایک مرتبہ ایک شخص نے میری دعوت کی مجھ کو شبہ تھا حرام کا ۔ میں نے تنہائی میں لطف کے