ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
بے بتلائے ہوئے سمجھ لینا ضروری ہے اور میں اس سے قاصرہوں توتم کویہ حق صاصل ہے کہ مجھے لکھو کہ جب تجھ کواتنا بھی سلیقہ نہیں تو تجھ سے تعلق رکھنا ہی فضول ہے تو پھرمیری طرف سے اجازت ہے کسی اور سے تعلق کرو پھر فرمایا کہ یہ تو امور طبیعہ اور فطری ہیں کہ اپنی حالت کوآدمی اس طرح لکھے کہ جس کو دوسرا سمجھ بھی تولے یہ گول مول باتیں لکھنایا کرنا کون سی عقلمندی کی بات ہے ایک ضروری بات یہ ہے کہ آدمی جس کے پاس جاوے اورجس کام کوجاوے اس سے صاف کہہ دے اس میں کسی کی تعلیم کی کونسی ضرورت ہے مثلا بازار جاتے تویہ نہیں کہتے کہ سودا دیدو بلکہ اس چیز کا نام لیتے ہیں کہ نمک دیدو مرچ دیدو گرم مصالحہ دیدو ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اس چیز کا نام نہ لیں یا اسٹیشن جاکر یہ کہتے کہ ٹکٹ دیدو اوراس مقام کا نام نہ لیتے ہوں جہاں کا ٹکٹ لینا ہے بلکہ یوں کہتے ہیں کہ نانوتہ کا ٹکٹ دیدو سہارنپوررامپورکا ٹکٹ دیدو وہاں ناقص کلام کو کافی نہیں سمجھتے مگران نا تمام باتوں کی مشق کے لئے بیچارے ملا ہی رہ گئے ہیں یہاں پرآکر کہتے ہیں کہ تعویذ دیدو اب یہ کچھ نہیں کہ کس چیز کا تعویذ کیا ملانے ان کے باوا کے نوکر ہیں کہ بیٹھے ہوئے پوچھا کریں مگر میرے یہاں آکران کا دماغ درست کردیا جاتا ہے کہ ایسی بیہودگیوں پرروک ٹوک ہوتی ہے گوباہر جاکر بد نام کرتے ہیں کہ بدخلق ہے سخت گیر ہے مگر اس کے ساتھ اپنے اخلاق حمیدہ اورنرم خوئی کا کوئی ذکر نہیں کرتے کہ ہم نے بھی کسی کو ستایا ہے اور اذیت پہنچائی ہے یا نہٰیں ان لوگوں کے صاف نہ کہنے پرصرف ایک یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ میں ان سے پوچھا لیا کروں کہ کیا کہتے ہواورمیں یوں اس پرقادر بھی ہوں اورپوچھ بھی سکتا ہوں مگر پوچھتے ہوئے غیرت آتی ہے اس لئے کہ جب ان نالائقوں کی یہ حالت ہے کہ ان کے قلوب میں اہل علم اوراہل دین کی وقعت نہیں توہمیں ہی کون سی ضرورت ہے کہ ان سے چاپلوسی کریں یہ پوچھنا اس حالت میں میرے لئے موت کے برابر ہے بلکہ ایک حیثیت سے موت محبوب ہے اور تلخ ہے آخر یہ کس قاعدہ سے میرے ذمہ ہے کہ کام تو اس کوپوچھوں میں مجھ کوضرورت اور غرض ہی کیا ہے بہت سے بہت غیرمعتقد ہوجائیں گے سو میری جوتی سے ایسے بدفہموں کا تو غیر معتقد ہی ہونا بہترہے اور زیادہ سے تکبر کا الزام ہوگا مگر تملق کا توالزام نہ ہوگا باقی مجھ کو تواس سے بھی مسرت ہوتی ہے کہ ایک بدفہم اپنی بدفہمی مطلع توہوا دوسرے رسمی پیروں کے یہاں توایسے بدفہموں اوربدعقلوں کی بڑی آؤ بھگت اورچاپلوسی ہوتی ہے خوشامدیں کی جاتی ہیں اور محض غرض کی بناء پراور وہ غرض دنیا ہے جواہل علم اور درویشوں کی شان