ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
واقعات سے ظاہر سلطان سنجرشاہ نیمروز نے حضرت غوث پاک رحمہ اللہ کو لکھا تھا کہ اگر اجازت ہوتوجی چاہتا ہے کہ ملک سنجرکا کچھ حصہ خانقاہ کے اخراجات کے لئے پیش کردوں تاکہ اہل خانقاہ کی راحت اورآرام کا سامان ہوجائے حضرت نے جواب میں تحریرفرمایا چوں چتر سنجری رخ بخشم سیاہ باد دردل اگر بود ہوس ملک سنجرم زانگہ کہ یا فتم خبراز ملک نیم شب من ملک روز بیک جو نمی خرم (ملک سنجرے کے چھتری کی طرح میرہ نصیبہ بھی سیاہ ہواگر میرے دل میں ملک سنجر کیہوس ہو (اوراصل بات یہ ہے کہ ) جب سے ملک نیم شب کی خبرمجھ کوملی ہے ملک نیم روز کوایک کوڑی کے بدلہ میں خریدنے کوتیارنہیں ہوں ۔12) حضرت بختیار کا کی رحمہ اللہ کوسلطان شمس الدین نے چند مواضع کا فرمان لکھ کربھیج دیا کہ آپ کی خانقاہ اور اہل کے لئے پیش کرتا ہوں اس پرحضرت نےجواب میں تحریرفرمایا کہ ہم کوتم سے محبت ہے اور اس لئے ہم سمجھتے تھے کہ تم کوبھی ہم سے محبت ہوگی مگرآج معلوم ہواکہ تم کو ہم سے محبت نہیں کیونکہ اگرتم کوہم سے محبت ہوتی تو کیا محبت کا یہ ہی حق تھا کہ جوچیز خداتعالٰی کی نظر میں مبغوض ہے یعنی دنیا اس کو ہمارے سامنے پیش کرتے اوریہ نہیں تھا کہ کے پاس سامان تھا اس لئے استغناء تھا ان حضرات پرفاقے گذرتے تھے مگرپھر بھی وہی شان تھی اورفاقہ بیچارا تو جس کی حقیقت نان کافقدان ہے کیا چیز ہے وہ ہوقت جان پیش کرنے کو تیار بیٹھے رہتے ہیں اسی کو مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ناخوش تو خوش بود برجان من دل فدائے یار دل رنجان من ( تیری طرف سے (ظاہرا) ناگواربات بھی مجھے دل وجان سے گوارا ہے اورتیری جفاؤں پربھی دل قربان ہے ۔ 12) حضرت شاہ عبدالقدوس صاحب گنگوہی رحمہ اللہ کی بیوی ان کے پیر کی بیٹھی تھیں کبھی دراز فقر وفاقہ پر کہتیں کہ اب برداشت نہیں ہوتی کچھ کھانے کا انتظام کرنا چاہئے توفرماتے گھبراؤ مت انتظار ہورہا ہے دریافت کرتیں کہاں ہورہا ہے فرماتے جنت میں ہورہاہے بی بی بھی ایسی تھیں کہ جنت کے وعدہ پرمطمئن ہوجاتیں سبحان اللہ کیا ایمان تھا ان ہی بی بی کا یہ واقعہ بھی ہے کہ ان کے پاس ان کے تمام زیورات میں سے صرف چاندی کا ایک ہاررہ گیا تھا جب حضرت گھر میں