ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
دے کرجلدی یہ مسجد کے دروازہ سے نکلی ہی تھی کہ ملا آگیا اس عورت سے دریافت کیا کہاں آئی تھی کہا کہ فلاں چیز کھانے کی لائی تھی مگر تم نہ تھے اس لئے مسافروں کودےکر چلی آئی یہ سن کرملائے آگ لگ گئی اورخیال کیا کہ بری راہ نکلی اب ہماری تخصیص مٹ جائے گی مسجد میں پہنچا اور ایک ہاتھ میں لٹھ لےکر تمام مسجد کےصحن میں دیوانوں کی طرح مارتا پھرنے لگا اور اخیر میں خود دہڑام سے گرگیا گاؤں والے جمع ہوگئے سوال کرنے پرکہا کہ بس اب میرا یہاں گذر نہیں اورکہیں جار رہا ہوں لوگوں نے وجہ پوچھی کہا کہ بات یہ ہے کہ میں تویہاں کے مردوں کو پہچانتا ہوں مسافر پہچانتا نہیں جب مردے جمع ہوئے اس مسافر نے تقسیم میں گڑبڑکی اس کو تونا واقف سمجھ کرکچھ بولے نہیں جب میں آیا میرے سرہو گئے مجھ کو لپٹ گئے میں نے کتنا ہی ہٹایا لٹھ بجایا کہ جب مجھے دی ہی نہیں میں تم کو کہاں سے دوں مگر ایک نہ سنی آخرسب نے مل کرمجھ کو گرادیا اب اگر ہمیشہ ایسا ہی ہو امیں تو مرجاؤں گا اس لئے جاتا ہوں دوسری جگہ گاؤں والے بیچاروں نے متفق ہوکر کہا کہ بس جی ملا ہی کو دیا کرینگے یہ کماؤ لوگ ایسے شریر ہوتے ہیں ملا پر ایک حکایت اور یاد آئی ایک عورت نے کھیر پکائی اتار کررکابی میں رکھی کتا آیا منہ ڈال گیا عورت نے اپنے بچے سے کہا کہ جایہ مسجد کے ملا کودے آ، وہ لیکر گیا ملا کونہ معلوم کے روز میں کھیرملی تھی بچے کے ہاتھ سے لیتے ہی ایک طرف سے کھانا شروع کردی بچے نےکہا ملاجی ادھر سے نہ کھائیو ادہر کتے نے منہ ڈالدیا تھا ملاجی نے نہ سن کرہاتھ سے رکابی پھینک کرماری وہ رکابی ٹوٹ گئی بچہ رونے لگا ملاجی نے دریافت کیا کہ تو کیوں روتا ہے کہاکہ تم نے رکابی پھوڑدی مجھ کو میری ماں مارے گی یہ تو میرے بھیا کے پاخانہ اٹھانے کی رکابی تھی یہ حالت ان کے عوام وخواص کی ہے اسی طرح کی حالت آج کل کے کماؤ پیروں کی ہے ایک ایسے ہی گاؤں میں پیراپنے مریدوں میں گئے ایک مریدنی گنواری کے یہاں ٹھہرے ایک دوسری گنواری مریدنی آئی کہ شام کو میرے یہاں ٹھہر ے ہیں میرا حق ہے اختلاف ہونے لگا تو دونوں کے اتفاق سے پیر صاحب حکم سے کہا کہ بھائی ٹھہرا ہوں اسی کے یہاں کھانا مناسب ہے آنے والی بولی اچھی بات مگر میں نے مرغ کاٹاتھا یہ سن کر پیر پھسل گئے اور گھروالی سے کہا کہ خیر اسی کو اجازت دیدے وہ ان سے کیا کہتی جھلاکر آنیوالی سے کہا جاتوہی پیرسے یوں توں کرالیجوبس یہ حالت ہے اسی لیے ان نالائقوں کی قدر منزلت بھی ایسی ہی ہوتی ہے ایک گاؤں میں اناج کی