ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
غرق کیشقے شوکہ غرقست اندریں عشق ہائے اولین و آخریں اب یہ سوال ہوتا ہے کہ یہاں پر تو عاشق اس لئے ہوتے ہیں کہ محبوب تک رسائی کی امید ہے وہاں ہماری رسائی کہاں مولانا اس شبہ کا جواب فرماتے ہیں تو مگو مارا بدں شہ باز نیست باکریماں کارہا د شوار نیست اس مصر عہ ثانیہ میں شبہ کی جڑ قطع کردی یعنی بے شک ہماری کوشش سے رسائی مشکل ہے لیکن وہاں تو ان کے کرم سے رسائی ہوتی ہے اور کریم کو کچھ مشکل نہیں وہ اپنے کرم سے خود ہی سب کچھ کردیتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ طلب کو ضرور دیکھتے ہیں ورنہ بدون طلب کے یہ فرماتے ہیں انلزمکموھا وانتم لھا کارھون خواہ طلب ضعیف ہی ہو اٹھ کر چلو تو سہی آگے وہ سب کچھ کر لیں گے صورت تو بناو روح بھی خود ہی پھونک دیں گے آج کل تو چاہتے یہ ہیں کہ تعویزوں گنڈوں سے یا کسی کے تصرف سے کام چل جائے خود کچھ نہ کرنا پڑے اگر یہ ہے تو پھر روٹی سامنے رکھ کر بھی بیٹھے رہا کر و خوبخود منہ میں جاکر حلق کے نیچے اتر جایا کرے گی کیا بیہودگی ہے اگر آدمی کو خود عقل نہ ہو فہم نہ ہو تو دوسرے کا اتباع توکرے جووہ تعلیم کرے اس پرعامل ہو اب تو حالت یہ ہے کہ اول تو اس راہ کی طرف آتے ہی نہیں اور اگر آئے بھی تو یا تو طریق میں غلطی کرتے ہیں جیسا ابھی بیان ہوا یا ثمرات میں غلطی کرتے ہیں یعنی یہ چاہتے ہیں کہ کشفیات ہوں لذات ہوں کچھ نظر آنے لگے سو ایسی توجہ کی توہ وہ حالت ہوئی ہے اگر غفلت سے بازآیا جفا کی تلافی کی ظالم نے تو کیا کی غرض کہ اعتدال نہیں افراط و تفریط سے ایک عالم کاعالم بھرا پڑا ہے اس حالت میں اگر کوئی طبیب شفیق چاہتا بھی ہے کہ ان کے گلے سے نیچے کچھ زبرد ستی ہی پہنچا دیا جائے تو اس پر جبڑا بند کرکے دانت پیستے ہیں اور ادنی چرکہ کی بھی برداشت نہیں اسی کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں گر بہر زخمے تو پر کینہ شوی پس کجا بے صیقل آئینہ شوی ( اگر برزخم سے تم کو گواری ہو تو آئینہ کی طرح تم کس طرح صاف شفاف ہوسکتے ہو ۔ 12)