ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا تعلق وقوع کی خصوصیات سے ہے جیسے طبیب کی تقریر متعدد تغیرات کے کل نسخے اور مرض کے کل اسباب ایک ہی جلسہ میں بیان نہیں ہوتے ۔ مثلا کبر کے اسباب مختلف ہیں اس کے علاج بھی مختلف ہیں اب یہ تشخیص کہ کبر ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس کا سبب کیا ہے یہ سب کچھ وقت پر شیخ ہی سمجھ سکتا ہے تو پہلے سے کلیات معلوم کرنے سے وقت پر انطباق کون کرے گا یہ ہی وجہ ہے کہ میں کہا کرتا ہوں کہ چندے شیخ کے پاس رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ وقت وقت پر حالت بدلتی رہتی ہے جیسے مریض کو طبیب کے پاس رہ کر علاج کرانے کی ضرورت ہے ۔ بالکل اسی طرح مرید کو شیخ کے پاس رہ کر علاج کرانے کی ضرورت ہے اور یہ بالکل موٹی بات ہے جس کو میں بیان کر رہا ہوں کوئی باریک بات نہیں کہ کسی کی سمجھ میں نہ آئے غرض پاس رہ کر کام کرنے سے بڑی سہولت سے شیخ اس گھاٹی سے نکال کر لے جائے گا ۔ لیکن یہ نہ سمجھ لیا جاوے کہ سب کچھ شیخ ہی کرے گا وہ تو تدابیر کہلائے گا اور سہولت سے یہ ہی مراد ہے کہ طالب پر فکر کا بوجھ نہیں پڑے گا ۔ سب تدبیریں وہی بتلائے دے گا مگر اس تعلیم میں گو شیخ اس کی ہر ممکن رعایت کرے گا مگر اس کے تابع نہ ہو گا اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اور اس کو نماز نہیں آتی وہ کہتا ہے کہ مجھ کو نماز پڑھا دو تو اس سے کہا جائے گا کہ بھائی پہلے وضو کرو یا عذر ہو تو تیمم کرو تب نماز پڑھ سکتے ہو اس پر بجائے اس کے کہ اس کا تابع ہو اس کو اپنا تابع بنا کر وہ احمق یہ کہے کہ میرا مطلوب اور مقصود تو نماز ہے وضو یا تیمم تو میں نہیں کر سکتا ۔ اب بتلائیے نماز کیا خاک ہو گئی ہر کام طریق سے ہوتا ہے اب وہ وضو کی تنگی خیال کرے اور مقصود سے بے تعلق خیال کرے تو اس وقت یہ جواب دیا جاوے گا کہ جہاں بدوں وضو نماز پڑھائی جاتی ہو وہاں جا کر پڑھ لو ہم تو بے وضو نماز نہیں پڑھا سکتے غرض اس کا علاج شیخ کے پاس بھی نہیں کہ وہ خود کچھ نہ کرے اور اگر کرے تو اپنی رائے کو دخل دے یا جو طریق ہے کام کا اس سے اعراض کرے اور شیخ کی تعلیم کو تنگی پر محمول کرے ۔ ایک حکایت یاد آ گئی اس تنگی پر حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ گنج مراد آبادی سے ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت حنیفہ کا جو مذہب ہے مفقود الخبر کے متعلق اس