ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
جیسے شاہ شمس تبریز کی لسان مولانا رومی ہوۓ اور میری لسان مولوی محمد قاسم صاحب تھے یہ حضرات عجیب شان کے بزرگ تھے سلف کے نمونہ تھے اللہ کا بڑا فضل ہے کہ ان حضرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا یہ ہی وجہ ہے کہ اور کوئ نظروں میں نہیں سماتا ان حضرات میں کوئ بات تو تھی ہی کہ ان کی صحبت سے گنوار لٹھ ایسے ہو جاتے تھے کہ بعضے علماء میں بھی وہ چیز نظر نہیں آتی ان حضرات کی صحبت جس کو نصیب ہو گئ اس کی حالت یہ حلت ہو گئ جس کو فرماتے ہیں َِ: آہن کہ بپارس آشنا شد فی الحال بصورت طلا شد (جو لوہا پارس کی پتھری سے چھو بھی گیا فورا ہی سونے کی شکل ہو گیا12 ۔) مفتی الہی بخش حضرت سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے معتقد تھے کسی کے سوال پر مفتی صاحب نے فرمایا تھا کہ سید صاحب کے تعلق سے پہلے بھی قرآن وحدیث پڑھے ہوۓ تھے اور اب بھی وہی قرآن وحدیث پڑھتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ یہ قرآن وحدیث پہلے اور طرح نظرآتا تھا اب اور طرح کا نظرآتاہے ہے سو یہ چیز بزرگوں کی صحبت سے ملتی ہے مگر افسوس اتی بڑی چیز کو لوگ چھوڑے ہوۓ ہیں اور صحبت اختیار نہیں کرتے بڑا ناز ہے علم پر کہ ہم عالم ہو گۓ یاد رکھو بدون اپنے کو مٹاۓ کچھ نہیں ہوتا مٹانے کے یہ معنی نہیں کہ مٹا دو کہ ہم کچھ نہیں ب تک یہ بات نہ پیدا ہو سمجھ لو کہ دوسرے معنی کر فنا ہو یعنی برباد ہو کورے ہو کچھ نہیں ہو اب رہا وہ شبہ کہ وہ چیز کیا ہے جو بزرگوں کی صحبت سے نصیب ہوتی ہے اور اپنے کو ان کے سپرد کرنے سے ملتی ہے بات یہ ہے کہ یہ سمجھانے سے مطلق سمجھ میں نہیں آسکتی اگر سمجھایا بھی تو ایسا قصہ ہو جائے گا جیسے ایک اندھے حافظ جی کی حکایت ہے ٹیڑھی کھیر کی وہ اس طرح ہے کہ ایک حافظ جی تھے نابینا ان کی ایک لڑکے نے دعوت کی کہنے لگے کیا کھلاؤ گے اس نے کہا کہ کھیر اب گڑبڑ شروع ہوتی ہے اور غلطی میں ابتلاء ہوتا ہے حافظ جی نے پوچھا کہ کھیر کیسی ہوتی ہے اس نے کہا کہ سفید کہنے لگے سفید کسے کہتے ہیں ، اس نے کہا جیسے بگلا حافظ جی نے پوچھا بگلا کیسا ہوتا ہے ََََِ؟ اب وہ اس کو کیسے سمجھاتے ، اس نے سامنے بیٹھ کر اور ہاتھ موڑ کر سامنے کو کر دیا کہ ایسا ہوتا ہے حافط جی نے ہاتھ سے ٹٹول کر کہا کہ بھائی یہ تو بڑی ٹیڑھی کھیر ہے حلق سے نیچے کیسے اترے گی دیکھئے مناسبت نہ