ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
لوگوں کی دعاء کی برکت ہے اسٹیشن بننے کے بعد ریلوے کا ایک بڑا افسر یعنی اسسٹنٹ مینجر جوقوم کا ہندو اوروطن کا بنگالی اورمعاشرت کا انگریزتھا جواردو بھی نہ سمجھتا تھا یہاں آیا مجھ سے ملاقات کرنا چاہتا تھا مجھ سے آنے کی اجازت چاہی میں نے کہا کہ میں خود اس کے پاس جاکر مل لوں گا اس نے کہا کہ یہ خلاف ادب ہے میں نے کہا اول تو راحت رسانی میں ایک تویہ کہ اگروہ آیا تو اس کے لئے کرسی چاہئے ورنہ وہ اگر زمین پربیٹھے تومجھ کو برا معلوم ہوتا ہے دوسرے یہ کہ اگر میں ملنے گیا تومیں آزاد ہوں گا اور وہ پابند اور اگر وہ آیا تو میں پابند رہوں گا اور وہ ازاد تیسرے اس کے مہمان ہونے کا حق بھی ہے میرے جانے پرخوش ہوگا اورخلاق کے اعتبار سے اثر اچھا ہوگا غرض میں خود ہی گیا نہایت مسرور ہوا اور تواضع سے یہ حالت تھی کہ بچھا جاتا تھا پھر اس جملہ مذکورہ کے متعلق کہ راحت رسانی ادب ہے فرمایا کہ ادب تعظیم کونہیں کہتے ادب کہتے ہیں راحت رسانی کو پھر ادب کے تعلق سے تہذیب کا ذکر آگیا اس کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا کہ اس ہی ضلع میں ایک مقام ہے ککرولی وہاں بعض غرباء نے مجھے مدعو کیا تھا وہاں شیعہ رئیس اورزمیندارہیں میں مغرب کے وقت وہاں پہنچا میرے پہنچنے کے بعد ان لوگوں نے میرے پاس کہلا کر بھیجا کہ ہم ملاقات کرنا چاہتے ہیں ہم کو وقت بتلادیا جائے میں نے دوستوں سے کہا کہ انہوں نے یہ سوال کرکے اپنی تہذیب جتلائی ہے اب میں اس کے جواب میں اپنی تہذیب دکھلاؤں گا میں نے جواب کہلا کر بھیجا کہ مختصرملاقات تو اس وقت بھی ممکن ہے اور مفصل ملاقات صبح کو ہوسکتی ہے انہوں نے کہلا بھیجا ہم اسی وقت آنا چاہتے ہیں میں نے اجازت دیدی اور یہ بھی کہلا بھیجا کہ یہاں پرمیرے پاس غرباء کا مجمع کرسکتا ہوں مطلب میرا اس کہنے سے یہ تھا کہ ان لوگوں کو تہذیب کا بڑا دعوی ہوتا ہے ان کو بھی تو دکھلادوں کہ تہذیب ہے کیا چیز چنانچہ ان کو جس وقت میراجواب بہنچا ہے تڑپ ہی تو گئے کہ ہماری کس قدررعایت کی گئی ہے اور یہ کہلا کربھیجا کہ ہم غرباء ہی کے ساتھ بیٹھیں گے اور وہیں جاکر ملاقات کریں گے چنانچہ فورا جمع ہوگئے اورملاقات ہوگئی بسبیل گفتگو ان میں سے بعض حضرات نے بیعت کی بھی درخواست کی میں نے سوچا کہ کیا جواب دوں اگرعدہ کروں تو شیعہ رہتے ہوئے کیسے بیعت کروں اور اگر انکار کروں تو دل شکنی آخریہ جواب دیا کہ میں اس وقت سفر