ملفوظات حکیم الامت جلد 4 - یونیکوڈ |
|
ہی سیکا ہوتا ہے کام تو قلیل جماعت سے بھی ہوسکتا ہے بشرطیکہ کام کرنے والے رضائے حق نہیں اورجب تک مسلمانوں میں یہ بات رہی یہ غالب رہے طلحہ بن خویلد نے اپنے وزیرسے پوچھا تھا کہ ہمارے پاس سب سامان ہے تلواریں ہیں جمعیت زیادہ ہے پھر بھی یہ مسلمان ہم پر غالب آتے ہیں ان میں ایسی کون چیز ہے جس کا یہ اثر ہے وزیر سمجھدار تھا عجیب جواب دیا کہ ہم میں ان میں ایک فرق ہے وہ یہ کہ ان میں کا تو ہرشخص خود تو زندہ رہنا چاہتا ہے اور دوسرے کو مردہ بنانا چاہتا ہے ان کے نزدیک مقدم موت ہے اور ان کے نزدیک مقدم حیات ہے بس یہ چیز ان لوگوں میں زیادہ ہے جوہم میں نہیں یہی وجہ ہے کہ ان پرکوئی غالب نہیں آسکتا اور یہ طلب رضاہی سے ہوسکتی ہے اسی باب کا اورایک واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ نے چند صوفیہ کو کسی کی نمائی ( چغلی ) پرقتل کرنا چاہا اور جلادیا کو حکم دیا جلادنے ایک کی گردن مارنا چاہا دوسرا بولا کہ پہلے مجھ کو قتل کیا جائے اس کوقتل کرنا چاہا تو تیسرے نے کہا مجھ کو پہلے قتل کردو علی ہذا جلاد چکر میں آگیا اور بادشاہ کو اطلاع دی اس پراثر ہوا اور سب کچھ چھوڑدیا کہ ایسے لوگ بد دین نہیں ہوسکتے یہ تو طلب رضا کے متعلق استطراد احکایتیں تھیں اب اصلا مضمون کی طرف عود کرتا ہوں میں یہ کہہ رہا تھا کہ مدار اعظم کامیاب کا طلب رضا ہے اب میں کہتا ہوں کہ اول تو تدابیر ہیں کیا چیز مشیت کے سامنے اور اگر ہوں بھی تویہ بھی تو تدابیر ہی میں سے ہے کہ خدا کو راضی کیا جائے اس تدبیرسے کیوں جان چرائی جاتی ہے اور یہ وہ تدبیر ہے کہ اس پرتمام تدابیر قربان ہیں میں بقسم عرض کرتا ہوں کہ اگر مسلمان اللہ کو راضی کرلیں تو انہیں کو تمام عالم پرعزت اور غلبہ حاصل ہو اور تمام دنیا کے مالک ہوں میرا مقصود اس بیان کرنے سے یہ نہیں کہ تدابیر اختیار نہ کرو ضرور کرو مگر اس کے ساتھ ہی حق تعالٰی کو راضی کرنے کے لئے بھی سعی کرو اس سے بھی ایک منٹ کےلئے غفلت نہ ہو اور ان تدابیر کے اختیار کرنے کے بعد بھی حق سبحانہ تعالٰی ہی کی طرف نظر رکھواسی کو فرماتے ہیں عقل در اسباب می وارد نظر، عشق می گوید مسبب رانگر ( عقل اسباب پرنظر رکھتی ہے اور عشق کہتا ہے کہ اسباب کے پیدا کرنے والے کو دیکھو ۔ 12)