تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
تو جاتا ہے پس اے کاش! جس طرح ناسمجھ بچہ اپنے سمجھ دار باپ کو سانپ سے ڈرتا ہوا اور بچتا ہوا دیکھ کر خود بھی بھاگتا اور عقل سیکھتا ہے اسی طرح غافل اور بے خبر مسلمان بھی اپنے محسن و مربی روحانی طبیبوں اور خاصان خدا کی حالت خوف کے مشاہدہ سے عبرت پکڑیں۔ !عراقی کہتے ہیں کہ ثابت نہیں البتہ قیامت میں ایسا ہونے کی روایت کتاب العظمة میں ابو شیخ کی ہے۔ فصل۔ خوف کی زیادتی مذموم ومضر ہے: خوف درحقیقت ایک چابک ہے جو انسان کو سعادت ابدی کی جانب دوڑاتا ہے لہٰذا اسی حد تک پسندیدہ ہے جب تک کہ نیکوکاری کا آلہ کار بنے۔ یعنی اتنا زیادہ نہ ہو کہ بے کار بنادے اور مایوسی کی حد تک پہنچا کر اعمال چھڑادے۔ ایسا حد سے بڑھا ہوا خوف جس سے ناامیدی پیدا ہوجائے شرعا مذموم(بڑا خراب) ہے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔ پس خوف کے ساتھ رجاء یعنی امید بھی ضروری ہے البتہ گناہ گار مسلمان کو خوف غالب رکھنا چاہئے اور جب دین دار بن جائے تو دونوں مساوی درجہ پر رکھے چنانچہ حضرت عمر فاروقb نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا اگر اللہ کا حکم صادر ہو کہ ساری مخلوق میں سے صرف ایک شخص جنت میں جائے گا تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ شخص میں ہی ہوں اور اگر فرمان صادر ہو کہ دوزخ میں صرف ایک ہی شخص داخل ہوگا تو مجھے خو ف ہے کہ وہ شخص کہیں میں ہی نہ ہوں۔ یہ حالت مساوات ہے جس میں خوف و رجاء دونوں کے پلے برابر ہیں۔ جوانی میں خوف اور بڑھاپے میں رجاء کا غلبہ مفید ہے: یادرکھنا چاہیے کہ جوانی و تندرستی کے زمانہ میں مسلمان کو خوف غالب رکھنا چاہئے کہ اس غلبہ شہوت کے زمانہ میں شہوات نفسانیہ کے توڑنے اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے مہذب بنانے کو خوف کے کوڑے کی ضرورت ہے اور بڑھاپے یا مرض کے زمانہ میں جب تک کہ موت قریب ہوتو رجاء یعنی امید کو غالب رکھنا چاہئے کہ اول تو ضعف و نقاہت اور مرض کیوجہ سے کچھ ہوتا ہی نہیں پھر اگر اس حالت میں خوف کا غلبہ ہوا تو جو کچھ ہورہا ہے اتنا بھی نہ ہو سکے گا اور بالکل ہی ہاتھ پائوں پھول جائیں گے حدیث میں آیا ہے کہ مسلمان کو مرتے وقت