تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
کے نہ دیکھنے ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی معافی پر بھروسہ کر کے ایسا مطمئن اور بے فکر ہو بیٹھا کہ علاج کی طرف مطلق توجہ نہیں کرتا برخلاف بدنی امراض کے کہ ان کا نتیجہ و انجام اس کے تجربہ میں آچکا ہے اور اس لئے یہاں اللہ پر بھروسہ نہیں ہوتا بلکہ علاج میں غایت درجہ کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ ہر قسم کے جملہ امراض کا پیدا کرنے والا اورشفادینے والا وہی اللہ ہے خواہ امراض جسمانی ہوں یاروحانی اور ظاہری ہوں یا باطنی۔ طبیب خود مریض بن گئے اور علماء محبانِ دنیا ہوگئے: سوم: اس کی وجہ سے کہ اس باطنی مرض کے طبیب مفقود(ناپید) ہو گئے اور یہ بات نہایت درجہ افسوس و حسرت کے قابل ہے کیونکہ اس قلبی مرض کے طبیب علماء شریعت اور عقلاء زمانہ تھے اور وہ خود باطنی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں پھر جب ان کو اپنے ہی علاج کی خبر نہیں تو دوسروں کا علاج وہ کیا کریں گے ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ مہلک مرض دنیا اور مالِ دنیا کی محبت ہے اور اس زمانہ پرآشوب(فتنہ سے لبریز) میں سب سے زیادہ اس مرض میں علماء ہی گرفتار نظر آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دوسروں کو دنیا کی محبت سے روکنے اور منع کرنے کی ان کو جرأت نہیں ہوتی بلکہ اپنی رسوائی کے اندیشہ سے وہ بھی ظاہر نہیں کرسکتے کہ دنیا کی محبت بری چیز اور باطنی امراض میں ایسا مہلک مرض ہے جس سے جانبری دشوار ہے پس یہی وجہ ہے کہ یہ مرض لاعلاج ہوگیا کیونکہ جب طاعون یا وبائی مرض عام طور پر پھیل جائے اور دواکا پتہ نہ مل سکے اور طبیب خود مریض اور اسی مرض کے بیمار بنے ہوئے ہوں تو پھر بھلا اس سے نجات کیونکر حاصل ہو سب سے زیادہ مصیبت یہ ہے کہ ان روحانی طبیبوں یعنی علماء کی دیکھا دیکھی عوام الناس کو محبت دنیا کی رغبت بڑھ گئی اور پرہیز یادوا وعلاج کی طرف توجہ کرنے کی کوئی سبیل بھی باقی نہ رہی کیونکہ یہی وہ اصحاب ہیں جن کی تقلید کی جاتی ہے اور عام آدمی انہی کو اپنا پیشوا اور مقتدا سمجھتے ہیں پس جب انہی کو محبت دنیا میں گرفتار دیکھیں گے تو پھر اس کو اچھی بات سمجھ کر کیوں نہ اقتدا کریں گے اور جب اقتدا کریں گے تو پھر اصلاح کی کیا صورت؟ افسوس کہ جن کا طبیب بنا کر دنیا میں بھیجا گیا تھا انہوں نے بجائے علاج کے مرض کو