تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
یہی لوگ تھے کہ ''کہو اللہ اس کے بعد سب کو چھوڑ دو۔'' انہوں نے کبھی ایسی چیز کا استعمال نہیں کیا جو اللہ واسطے نہ تھی یہ درجہ حاصل کرنا تو چونکہ آسان نہیں ہے اس لئے صرف ثقہ(بھروسہ کے ) مسلمانوں کا تقویٰ تو ضرور حاصل کرو کہ ان چیزوں کے پاس نہ بھٹکو جن کی حرمت پر علمائے دین کا فتویٰ ہے۔ تمام حیلوں کا صحیح مطلب اور ان سے احتیاط کی ضرورت: پہلی بات: تو یہ ہے کہ بعض فقہاء نے مسائل شرعیہ کے متعلق جو حیلے بیان کیے ہیںان کی جانب التفات نہ کرو مثلا یہ حیلہ کہ سال ختم ہونے سے پہلے اپنا تمام مال اپنی بیوی کے نام اور بیوی کا سارامال اپنے نام منتقل کر لیا کہ چونکہ مملوکہ مال سال بھر اپنی ملک میں نہیں رہا اس لئے زکوٰة واجب نہیں ہوئی اس قسم کا حیلہ کبھی مت اختیار کرنا۔ بات یہ ہے کہ فقہائے شریعت کا کام چونکہ دنیوی انتظام و سیاست ہے اس لئے اس حیلہ کی صورت میں زکوٰة ساقط ہونے کا فتویٰ دینے سے ان کی مراد یہ ہے کہ دنیا کا منتظم اور حاکم وقت سلطان اسی مسلمان سے زکوٰة کا مطالبہ کرے گا جس کا مال پورے سال بھر تک اس کے قبضہ مالکانہ میں دیکھ لے گا اور حیلہ کرنے والے متمول (مالدار) مسلمان کے پاس سلطانی محصل تحصیل زکوٰة کے لیے نہیں آئے گا کیونکہ جتنی بات بندوں کے دیکھنے کے متعلق تھی یعنی مالکانہ قبضہ وہ ختم سال سے قبل بیوی کے نام منتقل ہوجانے کی وجہ سے جاتا رہا مگر تمہیں چونکہ معاملہ اپنے پروردگار سے رکھنا ہے اوروہ دلوں کے حالات سے واقف ہے اس لئے یہ مکروفریب آخرت میں کام نہ آئے گا تمہیں معلوم ہو چکا ہے کہ زکوٰة سے مقصود بخل کی عادت کا دور کرنا ہے اور جب زکوٰہ تک سے بچنے کے حیلے کرنے لگو تو بخل کہاں دور ہوا بلکہ بخل کو تو سرچڑھا کر اپنا امام اور پیشوا بنا لیا کیونکہ اس کا یہاں تک کہنا مانا کہ اس بخل کو نجات دہندہ اور اللہ کے سامنے سرخرو کر دینے والاسمجھ بیٹھے تو اس صورت میں زکوٰة کا مقصود بالکل حاصل نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو مصلحت اس میں رکھی تھی اس کی جانب توجہ بھی نہیں کی اور برعکس معاملہ کیا کہ بخل کو دور کرنے کی جگہ اس میںترقی کی۔ مثلا مسلمان اپنی بیوی کو اس غرض سے تکلیف میں رکھتے ہیں کہ وہ تنگ آکر اپنا مہر