تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
حاصل کرنے میں دنیا کے مال و متاع پر اس طرح خاک ڈال دینی چاہئے جس طرح کسی بیش بہا جوہر کے خریدنے میں چند روپے کو خرچ کرنے میں دریغ نہیں ہوتا بلکہ روپیہ دے کر نہایت خوشی سے جوہر لے لیا جاتا ہے ایسے ہی دنیا کا سازو سامان چھوڑ کر بڑی مسرت کے ساتھ آخرت کی نعمتیں حاصل کر لی جائیں۔ دنیا کی رغبت و نفرت دونوں کا نہ رہنا کمال کا زہد ہے: تیسرا درجہ یہ ہے کہ دنیا کے مال و متاع کا عدم اور وجود برابر ہو جائے اور یہ خیال رہے کہ جو کچھ بھی دنیا میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار خزانوں کے بحر ذخار(پانی کے بڑے ذخیرہ والا دریا) اور دریائے ناپیداکنار کا ایک قطرہ ہے پس اگر مل جائے تو کچھ مسرت نہیں اور اگر نہ ملے یا آیا ہوا ہاتھ سے چلا جائے تو کچھ حسرت نہیں اس درجہ میں نہ تو دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور نہ اس سے متنفر ہوتا ہے اور یہی زہد کے کمال کا درجہ ہے کیونکہ تنفر بھی ایک قسم کی توجہ ہے اور اس شئے کے باوقعت ہونے کی علامت ہے اس لئے کہ جس شئے کی وقعت ذہن سے نکل جایا کرتی ہے اس کی دونوں جانبیں یعنی تنفر اور توجہ برابر ہو جایا کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت رابعہ عدویہ کی مجلس میں لوگوں نے دنیا کی مذمت بیان کرنی شروع کی تو آپ نے فرمایا کہ دنیا کی قدرومنزلت تمہارے دلوں میں ہے جب ہی تم اس کی مذمت کررہے ہو بھلاایک ذلیل اور بے قدر شے کی بھی کوئی مذمت کیاکرتا ہے خوب یادرکھو کہ جب دنیا کی وقعت قلب سے جاتی رہتی ہے تو رغبت اور نفرت دونوں سے انسان خالی الذہن ہوجاتا ہے ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ cکے پاس ایک لاکھ درہم آئے اور آپc نے ان سے نفرت نہیں کی بلکہ لے لیا اور اسی دن مساکین پر تقسیم فرماکر خرچ کر دئیے آپc کی خادمہ نے عرض کی کہ اے ام المومنینc ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں جس سے آپ روزہ افطار فرمالیتیں تو آپc نے جواب دیا کہ اگر پہلے یاد دلاتیںتو یہ بھی کرلیتے اب تو کچھ باقی نہیں رہا یہ درجہ غناء کہلاتا ہے پس ناعاقبت اندیش جاہل صوفی دھوکہ کھاتے اور اپنے مال کی بڑھوتری و حرص کو غنا کا درجہ سمجھ جاتے ہیں یعنی یوں خیال کرتے ہیں کہ چونکہ ہمارے قلب کو دنیا سے علاقہ نہیں رہا اس لئے ہمیں یہ مال و متاع کی کثرت مضر نہیں حالانکہ ان کا یہ