تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
چوتھی آفت : مذاق اور دل لگی کرنا اور زیادہ ہنسنا ہنسانا اس سے قلب مردہ ہو جاتا ہے اور ہیبت ووقار جاتا رہتا ہے ایسا شخص لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے اور بسااوقات دوسروں کو اس کے ساتھ کینہ وعداوت بھی پیدا ہوجاتی ہے نور معرفت میں تاریکی آجاتی ہے اور تحت الثریٰ (زمین کے نیچے) پھینک دیا جاتا ہے۔ شائستہ مزاح جائز ہے: البتہ تھوڑے مزاح(ہنسی کی بات) میں کچھ مضائقہ نہیں ، خصوصا اگر بیوی بچوں کا دل خوش کرنے کو ہو تو سنت ہے کیونکہ ایسا مزاح رسول مقبولa سے بھی منقول ہے۔ مگر وہ مزاح درحقیقت واقعی بات تھی کسی قسم کا جھوٹ نہ ہوتا تھا۔مثلا ایک بڑھیا سے آپa نے فرمایا کہ جنت میں بوڑھی عورت کوئی نہ جائے گی اس کا مطلب یہ تھا کہ جنت میں جو بھی عورت جائے گی وہ جوان ہو کر جائے گی یا مثلا صہیبb لڑکے تھے اور انہوں نے لال پال رکھا تھا اتفاق سے مر گیا تو رسول مقبولa نے فرمایا کہ کہو جی ابو عمیر تمہارا لال کیا ہوا، اسی طرح ایک دفعہ حضرت صہیبb چھوہارا کھارہے تھے اور ان کی ایک آنکھ دکھتی تھی تو آپa نے فرمایا صاحب آنکھ تو دکھتی ہے اور چھوہارا کھارہے ہو۔ انہوں نے مزاحاً جواب دیا کہ یارسول اللہa دوسری طرف سے کھارہا ہوں، یعنی جس طرف کی آنکھ دکھتی ہے اس ڈاڑھ سے نہیں کھاتا۔ ایک دفعہ آنحضرتa حضرت عائشہc کے ساتھ محض دل جوئی اور خوش طبعی کے طور پر دوڑے بھی ہیں غرض ایسے مزاح میں کچھ حرج نہیں ہے البتہ اس کی عادت ڈالنی اچھی نہیں ہے۔ فائدہ: ہنسی ، مذاق وہ برا ہے جس میں گناہ کی بات ہو۔کبھی کبھی خوش طبعی کر لینا اس میں کوئی حرج نہیں۔از بندہ محمد حسن عفی عنہ