تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
طبیعتوں'حالتوں اور موسم کی ارزانی و گرانی کے اختلاف سے اس میں کمی بیشی ہوسکتی ہے ہمارا مقصود یہ ہے کہ مال کو دوا کی مثل سمجھو کہ بقدر ضرورت تو مفید و نافع ہوا کرتی ہے اور اس میں اور کچھ زیادتی کر دی جائے تو وہ بیماری کو بڑھادیتی ہے اور اگر اس میں بہت ہی زیادتی کر دی جائے تو جان ہی سے ماردیتی ہے پس جہاں تک ہوسکے اخراجات و مصارف میں کمی کرو کیونکہ اگرتکلیف بھی ہے تو بس چند روز کی ہے کیونکہ زندگی ہی چند روزہ ہے پس یہ تو جس طرح ہو گی گزر ہی جائے گی اور یہ بھی یاد رکھو کہ کھانے کا مزہ بھی بھوک میں ہی معلوم ہوا کرتا ہے پس جتنے یہاں بھوکے رہو گے اس قدر جنت کی نعمتوں میں مزہ بھی زیادہ آئے گا۔ فصل۔ بخل کی حد اور حقیقت: بخل کی حد بھی معلوم ہونی چاہئے کیونکہ اکثر آدمی خود اپنی حالت میں شک کرتے ہیں اور نہیں سمجھ سکتے کہ بخیل ہیں یا سخی؟ اس لئے جاننا چاہئے کہ جہاں مال خرچ کرنے کا شرع حکم دے یا مروّت تقاضا کرے وہاں مال خرچ نہ کرنا بخل ہے پس اگر کوئی شخص اپنے بی بی بچوں کو وہ نفقہ تو برابر دئیے جائے جو قاضی نے مقرر اور اس پر واجب کر دیا ہے مگر اس سے زیادہ ایک لقمہ بھی دینا گوارا نہیں ہو تو چونکہ یہ سختی اگرچہ شریعت کے خلاف نہیں لیکن مروت کے خلاف ہے اس لئے بخل میں شمار ہے یا مثلا تم نے کسی دوکارندار سے کوئی شے خریدی اور ذرا سے نقص یا عیب کی وجہ سے اس کو واپس کر دیا تو اگرچہ یہ واپسی شرعا جائز ہے مگر چونکہ خلاف مروّت ہے اس لئے بخل کہلائے گا یہاں شبہ نہ ہونا چاہئے کہ جب یہ صورتیں مروت کے خلاف ہونے کی وجہ سے بخل میں داخل ہیں تو پھر شریعت نے ان کو جائز کیوں کہہ دیا بات یہ ہے کہ شریعت کا منشاء اس قسم کی بے مروتی کی باتوں کو جائز کہہ دینے میں یہ ہے کہ عام لوگوں کی باہمی نزاع دور کرے اور بخیلوں پر اتنا قلیل بوجھ ڈال کر جس کے وہ متحمل ہو سکیں انتظام دنیوی کو قائم رکھے مگر اس کے ساتھ ہی مروّت کا برتائو اور جو ضرورتیں اتفاقیہ پیش آجائیں ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے حدیث میں آیا ہے کہ ''جس مال کے ذریعے سے آدمی اپنی آبرو بچائے وہ بھی صدقہ ہے' مثلا کسی مال دار کو اندیشہ ہو کہ یہ شاعر میری ہجو کرے گا اور اگر میں