تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
اپنے اللہ کے ساتھ نیک گمان رکھنا چاہیے۔ رجاء اور ہوس کا فرق: ظاہر ہے کہ نیک گمان اسی وقت ہوگا جب کہ کچھ نیک اعمال بھی پاس ہوں گے۔ کیونکہ انسان جب کاشت کے لئے زمین میں بیج ڈالتا ہے اور نیولانے یا پانی دینے کے متعلق اپنی جیسی سعی سب کچھ کر لیتا ہے تو اسی وقت اللہ کے فضل پر بھروسہ کر کے پیداواری اور بوئے ہوئے کے کاٹنے کی امید رکھ سکتا ہے اور جب تک بیج نہیں ڈالا اور ایسی حالت میں اناج کی طلب وخواہش رکھی تو اس کو رجاء وامید نہیں کہتے بلکہ تمنا اور ہوس کہتے ہیں اور تمناو ہوس شیطانی دھوکہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''جو بندے ایمان لائے اور ہجرت کر گئے اور فی سبیل اللہ جہاد کیا وہی اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ رجاء و امید سعی و کوشش کے بعد ہوا کرتی ہے جس طرح کاشت کاربونے جوتنے کی پوری محنت کر لینے کے بعد منتظر ہوتا ہے کہ اگر آسمانی آفت سے حفاظت ہوئی اور بجلی، اولہ، آگ وغیرہ سے کھیت کو اللہ تعالیٰ نے بچائے رکھا تو امید ہے کہ جتنا بیچ ڈالا ہے ایک ایک کے بدلے ستر ستر بلکہ اس سے بھی زیادہ حاصل ہوں گے۔ اسی طرح مسلمانوں کو اللہ کی اطاعت میں پوری مشقت اٹھانے اور مجاہدہ وریاضت کرنے کے بعد امید رکھنی چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میرے اعمال و افعال کو قبول فرمالیا تو ایک ایک نیکی کا سات سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر ملے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ خوف عذاب کے باعث معاصی اور اللہ کی نافرمانیوں سے رکنا چاہئے اوررحمت الٰہی کے سبب نیکیوں میں رغبت ہونی چاہئے۔ پس خوف کو اسی وقت معتبر سمجھو جب کہ وہ تم کو معصیت سے روکے اور گناہ کی جرأت نہ ہونے دے اور اگر یہ حاصل نہ ہوتو خوف نہیں بلکہ عورتوں جیسی رقت قلبی اور وہم وخیال ہے جس کا کچھ اعتبار نہیں۔ اور چونکہ خوف جب کمال پر پہنچتا ہے تو دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوجاتی ہے جس کا نام زہد ہے لہٰذا مناسب ہے کہ کچھ زہد کا بیان کیاجائے۔