تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
لفظ ہیں خَلق سے مرادصورت ظاہری ہے اور خُلق سے مراد صورتِ باطنی ہے کیونکہ انسان جس طرح جسم سے تربیت دیا گیا ہے اور ہاتھ پائوں اور آنکھ کان وغیرہ اعضاء اس کو مرحمت ہوئے ہیں جن کو قوت بصارت یعنی چہرہ آنکھیں ادراک کر سکتی ہیں اسی طرح انسان روح اور نفس سے ترکیب دیا گیا ہے اور اس کا ادراک بصیرت یعنی دل کی آنکھیں کرتی ہیں یہ ترکیب ان ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی اور ان دونوں ترکیبوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جدا جدا صورت اور قسم قسم کی شکلوں پر پیدا فرمایا ہے کہ کوئی صورت اور سیرت حسین اور اچھی ہے اور کوئی صورت و سیرت بری اور بھونڈی ہے ظاہری شکل و ہیئت کو صورت کہتے ہیں اور باطنی شکل و ہیت کو سیرت کہتے ہیں ہاں سیرت کا مرتبہ صورت سے بڑھا ہوا ہے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ چنانچہ (وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ) آیة کریمہ میں روح کو اپنا کہہ کر ذکر فرمایا ہے اور (قُلِ الُرّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ) میں اس کا اظہار فرمایا ہے کہ روح امر ربانی ہے اور جسم کی طرح سفلی اور خالی نہیں ہے کیونکہ جسم کی نسبت مٹی کی جانب فرمائی اور ( اِنِّیْ خَالِقُ بَشَراً مِّنْ طِیْنٍ) (بے شک میں نے پیدا کیا آدم کو مٹی سے) ارشاد ہوا ہے۔ سیرت کے بھی چار اعضاء ہیں: اس مقام پر روح اور نفس سے ہماری مراد ایک ہی شے ہے یعنی وہ شئے جو اللہ تعالیٰ کے الہام والقاء سے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اشیاء کی معرفت اور ادراک حاصل کرتی ہے۔ بہرحال ثابت ہوا کہ زیادہ قابل لحاظ امرربانی یعنی سیرت انسانی ہی ہے کہ جب تک اس باطنی ترکیب کی شکل و ہیبت میں حسن موجود نہ ہوگا اس وقت تک انسان کو خوب سیرت نہیں کہاجاسکتا۔ چونکہ اس صورت کے اعضاء یعنی ہاتھ پائوں کی سیرت کو بھی اللہ تعالیٰ نے باطنی اعضاء مرحمت فرمائے ہیں جن کا نام قوتِ علم، قوتِ غضب، قوت شہوت اور قوت عدل ہے لہٰذا جب تک یہ چاروں اعضاء سڈول اور مناسب حدِ اعتدال تک نہ ہوں گے اس وقت تک سیرت کو