تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
نے عرض کیا کہ یارسول اللہa میرا خاوند ابوسفیان اتنا بخیل ہے کہ بقدر کفایت بھی مجھ کو خرچ نہیں دیتااور ظاہر ہے کہ یہ ابو سفیان کی شکایت اور غیبت تھی مگر چونکہ مفتی شریعتa سے استفسار کیاجارہا ہے کہ اس صورت میں میرے لئے شریعت کیا حکم دیتی ہے لہٰذا اس غیبت میں کچھ حرج نہیں مگر یادرکھنا چاہئے کہ اس صورت میں بھی یہ غیبت اسی وقت جائز ہے کہ جب اس وقت اپنا یا کسی مسلمان کا فائدہ متصور ہو۔ دوسروں کو نقصان سے بچانے کے لئے غیبت کرنا جائز ہے: چہارم: اگر کوئی شخص کسی سے نکاح یا خریدوفروخت کا معاملہ کرتا ہے اور تم کو علم ہو کہ اس معاملہ میں ناواقفیت کی وجہ سے اس کا نقصان ہے تو اس کو نقصان سے بچانے کے لئے اس کا حال بیان کردینا بھی جائز ہے اسی طرح قاضی کی عدالت میں کسی گواہ کا کوئی عیب اس نیت سے ظاہر کرنا کہ صاحب حق کو اس مقدمہ میں میرے خاموش رہنے سے نقصان نہ پہنچے جائز ہے البتہ صرف اسی شخص سے ذکر کرنا جائز ہے جس کے نقصان کا اندیشہ ہو یا جس پر فیصلہ اور حکم وارد ہو۔ پنجم: اگر کوئی شخص ایسے نام ہی سے مشہور ہوگیا ہو جس میں عیب ظاہر ہوتا ہے مثلا اعمش(چندھا) اعرج(لنگڑا) تو اس نام سے اس کا پتہ بتلانا غیبت میں داخل نہیں ہے پھر بھی اگر دوسرا پتہ بتلادو تو بہتر ہے تاکہ غیبت کی صورت بھی پیدا نہ ہو۔ ششم: اگر کسی شخص میں کوئی عیب ایسا کھلا ہواپایا جاتا ہے کہ لوگ اس کا یہ عیب ظاہر کرتے ہے تو اسے ناگوار نہیں گزرتا مثلا ہیجڑا کہ ان کے اس فعل کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو ان کو خیال بھی نہیں ہوتا تو یہ تذکرہ بھی غیبت سے خالی ہے البتہ اگر اس کو ناگوار گزرے تو حرام ہے۔ کیونکہ فاسق کے بھی کسی ایسے گناہ کا ذکر کرنا جو اس کو ناگوار گزرے بلاعذر خاص جائز نہیں ہے۔(بشرطیکہ کھلم کھلا گناہ نہ کرتا ہو) فصل: نفس کو غیبت سے روکنے کی تدبیر یہ ہے کہ غیبت کی سزا اور نقصان میں غور کرو حدیث میں آیا ہے کہ آگ جو گھاس میں اثر کرتی ہے غیبت اس سے جلد اور زیادہ اثر مسلمانوں کی نیکیوں