تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
(دین میں پختگی) جاتی رہتی ہے یہ تو عام مومنین کا تقویٰ کہلاتا ہے۔ دوسرا درجہ: صلحاء کا تقویٰ ہے یعنی مشتبہ چیز سے بھی پرہیز کرنا کیونکہ علمائے شریعت نے ظاہری حالت دیکھ کر اگر چہ مشتبہ کو حلال کہہ دیا ہے مگر چونکہ اس میں حرمت کا احتمال ہے اور اسی وجہ سے وہ شے مشتبہ کہلاتی ہے لہٰذا صلحاء اس کو بھی استعمال نہیں کرتے۔ دیکھو جناب رسول اللہa فرماتے ہیں کہ''جس میں شبہ ہواس کو چھوڑ دواور اس کو اختیار کرو جس میں کچھ بھی شبہ نہ ہو۔'' جائز زینت اور مباح لذت سے پرہیز کرنے کا راز: تیسرا درجہ: اتقیاء کا تقویٰ ہے جناب رسول اللہa فرماتے ہیں کہ ''مسلمان جب تک خطرہ والی چیزوں میں مبتلا ہونے کے اندیشے سے بے خطرہ چیزوں کو بھی ترک نہ کرے گا اس وقت تک اتقیاء کے درجے کو ہرگز نہ پہنچے گا۔ حضرت عمرb فرماتے ہیں کہ حرام کے مرتکب ہو جانے کے اندیشہ سے ہم حلال کے بھی دس حصوں میں سے نو حصے ترک کردیتے ہیں اسی بناء پر اللہ کے پرہیز گار بندے جب سوروپیہ کے مستحق ہوتے ہیں تو ایک کم سو لیتے ہیںاور جس وقت دوسرے کا حق دیتے ہیں تو ایک حبہ1 زیادہ دیتے ہیں۔ اور جب اپنا حق لیتے ہیں تو ایک حبہ کم لیتے ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیزl کا ذکر ہے کہ بیت المال کا مشک ان کے پاس آتا تو اپنی ناک بند کر لیتے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس کی خوشبو کو سونگھنا بھی تو اس کا استعمال ہی کرنا ہے لہٰذا بیت المال کے مشک کی خوشبو کو میں سونگھنا نہیں چاہتا۔ مزے دار حلال چیزوں کے کھانے اور جائز زینت اور آراستگی سے پرہیز کرنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ زبان کو مزہ لگنا اچھا نہیں ہے کیونکہ آج حلال کا مزہ پڑا ہے تو کل حرام کی لذت حاصل کرنے کا شوق ہو جائے گا قرآن شریف میں کافروں کی کثرت مال ومتاع اور دنیاداروں کے جاہ و چشم کی جانب نظر کرنے کی جو ممانعت آئی ہے وہ بھی اسی لئے آئی ہے کہ اس چمک دمک سے ایمان کی شیرینی کم ہوجائے گی اس