تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
ایک عارف فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے سبب مجھے اس کی پیدا کی ہوئی ہر چیز سے محبت ہے یہاں تک کہ اگر دوزخ کو وہ محبوب بنائے تو میں دوزخ ہی میں جانامحبوب سمجھوں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی محبت کی وجہ سے آگ میں جلنے کی بھی تکلیف محسوس نہ ہوگی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزl فرماتے ہیں کہ میرے لئے کوئی خوشی باقی نہیں رہی اگر ہے تو بس اللہ تعالیٰ کے قضاء وقدر پر راضی ہونا رہ گیا ہے جو مجھ کو ہر وقت حاصل ہے۔ ایک صوفی کا حال لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ان کا چھوٹا بچہ تین دن تک گم رہا ان سے کہا گیا کہ اگر آپ دعا مانگتے تو حق تعالیٰ بچہ کو لوٹا دیتا اور گمشدگی کی یہ کلفت نہ اٹھانی پڑتی انہوں نے جواب دیا کہ بچہ کے گم ہونے سے زیادہ تکلیف میرے لئے یہ تھی کہ میں اللہ تعالیٰ پر اس کے حکم میں اعتراض کرتا۔ تکلیف کے انجام یعنی ثواب کی وقعت تکلیف کااحساس کم یا گم کر دیا کرتی ہے: دوسری وجہ قضا پر راضی ہونے کی یہ ہے کہ تکلیف کی صورتوں میں تکلیف تو محسوس ہو مگر چونکہ عقل نے ان کو بہتر انجام یعنی ملنے والے اجروثواب پر مطلع کردیا ہے اس لیے طبیعت اس تکلیف کو بلا تکلف گوارا کرتی ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے طبیب کسی مریض کو پینے کے لئے تلخ دوا بتائے یا فصد کھلوانے کی ہدایت کرے تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ اس تلخ دوا کا پینا اور فصد کھلوانا تکلیف کی باتیں ہیں مگر چونکہ اس کے ساتھ ہی اس کے عمدہ نتیجہ یعنی صحت و تندرستی سے مریض کو آگاہی حاصل ہے لہٰذا وہ ان تکلیف دہ باتوں کے بتانے والے طبیب سے راضی اور خوش بلکہ اس کا احسان مندوممنون رہتا ہے اسی طرح سوداگر اپنے سفر تجارت کی گونا گوں صعوبتوں اور مشقتوں پرراضی ہوتا ہے حالانکہ ظاہر ہے کہ طبیعت اس تکلیف کوناگوار سمجھتی ہے مگر چونکہ عقل نے اس مشقت کا اچھا نتیجہ وانجام سمجھادیا ہے اسی لئے وہ ناگواری رضا اور رغبت سے بدل جاتی ہے پس حب دنیا کے ناپیدار فائدوں کی یہ حالت ہے کہ ان کی وجہ سے مشقت نہیں معلوم ہوتی تو اخروی سعادت کے حاصل کرنے میں بلاو تکلیف