تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
کہے جائے اور ہمیں سنائے جائے بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ غیبت سننے کا انتظار بھی ہے اور پھر یوں بھی سمجھتے ہو کہ ہم منع کر کے گناہ سے سبکدوش ہوگئے۔ یادرکھو کہ جب تک غیبت کرنے اور سننے کو دل سے برا نہ سمجھو گے تو اس وقت تک غیبت کے گناہ سے ہرگز نہ بچو گے۔ کیونکہ غیبت کرنے والا سننے والا دونوں برابر ہیں اور جس طرح زبان سے غیبت کرنا حرام ہے اسی طرح دل سے غیبت کرنا بھی حرام ہے البتہ چند صورتوں میں خاص لوگوں کی غیبت کرنا جائز ہے جس کی تفصیل ہم بیان کرتے ہیں۔ مظلوم کو ظالم کی غیبت کرنا جائز ہے: اول: مظلوم شخص ظالم کی شکایت اگرافسر اعلیٰ تک پہنچائے اور اپنے اوپر سے ظلم رفع کرنے کی نیت سے اس کے مظالم بیان کرے تو گناہ نہیں ہے البتہ ظالم کے عیوب کا ایسے لوگوں سے بیان کرنا جنہیں اس کو سزا دینے یا مظلوم کے اوپر سے ظلم رفع کرنے کی طاقت نہ ہو بدستور غیبت میں داخل اور حرام ہے ایک بزرگ کی مجلس میں حجاج بن یوسف کا ذکر آگیاتھا تو انہوں نے یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انصاف کے دن مظلوموں کا بدلہ حجاج سے لے گا اور حجاج کا بدلہ اس کی غیبت کرنے والوں سے لے گا اس لئے کہ بہتیرے آدمی حجاج کے مظالم ایسے آدمیوں کے سامنے بیان کرتے ہیں جن کو حجاج کے کئے ہوئے ظلم رفع کرنے کی طاقت نہیں ہے تو ایسے لوگوں کے سامنے حجاج کی غیبت کس طرح جائز ہوسکتی ہے۔ بدعتی کی غیبت کرنا جائز ہے: دوم: کسی شخص سے کوئی بدعت یا خلافِ شرع امر کے رفع کرنے میں مدد لینی ہو یا کسی کو اس کے فتنہ سے بچانا ہو تو اس سے بھی ان بدعتی لوگوں کا حال بیان کرنا اگرچہ ان کی غیبت کرنا ہے مگر جائز ہے۔ فتویٰ کی ضرورت سے کسی کی غیبت کرنا درست ہے: سوم: مفتی سے فتویٰ لینے کے لئے استفتاء میں امر واقعی کااظہار کرنا بھی جائز ہے اگرچہ اس اظہار حال میں کسی کی غیبت ہوتی ہو دیکھو رسول اللہa سے حضرت ہندہc