تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
ان دو باتوں کے بعد اگر طبعی امر باقی رہے یعنی دل بے اختیار چاہے کہ دوست خوش حال رہے اور دشمن پامال ہوں تو اب اس کا خیال نہ کرو کیونکہ جب اس کے ازالہ پر تم کو قدرت نہیں ہے تو اس پر گناہ بھی نہیں ہوگا مگر دل کی ناگواری ضروری بات ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ اگر محسود کی نعمت کے زائل کرنے پر تم کو قدرت حاصل ہو جائے تو اپنی طبیعت سے تمہاری خواہش یہی ہو کہ کاش اس کی نعمت چھن جائے مگر اپنے ہاتھ پائوں سے ایسا انتظام نہ کرو یا مثلا محسود کی نعمت کے قائم رہنے یا بڑھانے میں مدد دے سکتے ہو تو باوجود اس کے ناگوار گزرنے کے اس کو مدد دو اگر ایسی حالت ہو جائے تو سمجھ لو کہ جہاں تک اختیار اور قابو ہے یہاں تک ہم نے اللہ کے حکم پر عمل کرلیا اور سبکدوش ہوگئے ایسی صورت میں طبعی بات کا دور کرنا اپنے قبضہ میں نہیں ہے اور موجود تو ہے مگر چونکہ اختیاری کاموں نے اس کو چھپا اور دبالیا ہے اس لئے گویا کالمعدوم(نہ ہونے کی سی) ہوگئی ہے اور یہ بھی یادرکھو کہ جن کی نظر عالم ِ دنیا سے اٹھ جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ دنیا بھی ناپائیدار ہے اور اس کی تمام نعمتیں بھی فنا ہونے والی ہیں پس اگر اپنا دشمن فراخی یا وسعت و آرام ہی میں ہے تو کتنے دن کے لئے۔ اگر اعمال کے سبب مرنے کے بعد دوزخ میں جانے والا ہے تو اس کم نصیب کو اس چند روزہ آرام سے کیا نفع؟ اگر جنتی ہے تو جنت کی نعمتوں کو اس ناپائیدار نعمت سے کیا مناسبت۔ پس حسد کرنا اور دشمن کو دنیا کی کسی خوشی میں دیکھ کر جلنا بہرحال محض بے سود اور عبث ہوا۔ ساری مخلوق اللہ کی پیدا کی ہوئی ہے اور سارے آدمی اپنے پرائے اللہ کے غلام ہیں پس محبوب کی طرف سے جو انعام ہوں ان کے اثرات ان کے غلاموں پر بھی ظاہر نہ ہونے چاہئیں لہٰذا جس کسی پر بھی تمہارے قدرت والے محبوب کی عطائوں کے آثار ظاہر ہوں تمہارے لئے خوش ہونے کا مقام ہے نہ کہ رنج اور حسد کرنے کا۔ فائدہ: کسی کے پاس نعمت دیکھ کر اُس کے زوال(چھننے) کی تمنّا و خواہش کرنایہ حسد ہے اوراسی کو جلنا بھی کہتے ہیںاور اگر یہ تمنّا کرے کہ مجھے بھی یہ نعمت مل جائے اور میرے بھائی