تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
پہلا درجہ: قولی صدق کا ہے کہ ہر حالت میں سچ بولے اور اس کے کمال دو ہیں۔ اول کمال یہ ہے کہ تعریض سے پرہیز کرے کیونکہ تعریض اگرچہ سچ ہی میں داخل ہے مگر پھر بھی سننے والا اس سے خلاف واقع مضمون سمجھ سکتا ہے لہٰذا اس سے بھی احتراز کرے کیونکہ جھوٹ بولنے کی حرمت کا سبب یہ ہے کہ اس کی وجہ سے قلب کی صورت میں کجی آتی ہے اور وہ حق کی تجلی کے قابل نہیں رہتا چنانچہ ایسے شخص کو خواب بھی سچا نظر نہیں آتا اور تعریض کا اگرچہ یہ ثمرہ نہیں ہوتاتاہم اس کی صورت چونکہ جھوٹ کے مشابہ ہے اس لئے اندیشہ ضرور ہے پس صدیق کی شان کے مناسب یہی ہے کہ بلاضرورت خاص دوسرے کوتعریض کے ذریعہ سے بھی واقع کے خلاف امر کا دھوکہ نہ دے۔ دوسرا کمال یہ ہے کہ ان اقوال میں بھی صدق کا لحاظ رکھے جو حق تعالیٰ کے سامنے عرض کرتا ہے مثلا نماز میں زبان سے کہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کرتا ہوں پس اگر اس کے دل میں بھی ماسوای اللہ کاخیال نہیں ہے تب تو وہ قول میں سچا ہے ورنہ جھوٹا ہے۔ مثلا کہتا ہے کہ (اِیَّاکَ نَعْبُدُوْ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ) کہ میںتیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں پس اگر دل کے اندر زر کی طلب اور مال کی محبت موجود ہے تو یہ بھی کذب ہے کیونکہ اظہار تو اللہ کے معبود اور اپنے بندہ ہونے کا کررہا ہے اور دل بندۂ زراور بندۂ دنیا بنا ہوا ہے۔ صدق نیت کا عزم: دوسرا درجہ: نیت میں سچا رہنے کا ہے یعنی ایسا اخلاص کہ جس میں عبادت اور فعل خیر کے قصد کے سوا کسی دوسرے قصد کی مطلق آمیزش نہ ہو۔ عزم کا صدق: تیسرا درجہ: عزم میں سچا بننے کا انسان اکثر عزم کرتا ہے کہ اگر مجھے مال ملا تو اتنی خیرات کروں گا یا مثلا خیال ہوتا ہے کہ حکومت ہاتھ آئے تو عدل کروں گا اس کا نام عزم ہے مگر بعض لوگوں کے عزم میں پختگی ہوتی ہے اور کہیں تردد تذبذب (ڈگمگانا) اسی طرح