تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
قوت عقل کے اعتدال و افراط و تفریط کے آثار: قوت ِ عقل میں اگر اعتدال ہوتا ہے تو انسان مدبر و منتظم اور ذکی و سمجھ دار ہوتا ہے کہ اس کی رائے صائب ہوتی ہے اور ہر مضمون میں اس کی طبیعت چستی اور جودت دکھاتی ہے اور اگر حد اعتدال سے بڑھ جائے تو دھوکہ بازی، فریب دہی اور مکاری کہلاتی ہے اور اگر عقل کی قوت میں کسی قسم کا نقصان اور ضعف ہوگا تو کندذہنی و حماقت اور بے وقوفی کہلائے گی جس کا اثر یہ ہوگا کہ ایسا آدمی جلد دوسرے کے دھوکہ میں آجائے گا۔ غرض جس وقت یہ ساری قوتیں حداعتدال پر ہوں گی تو اس وقت انسان کو حسن الخُلق یعنی خوب سیرت کہا جائے گا۔ کیونکہ اعتدال سے گھٹنا اور بڑھنا دونوں حالتیں حسن سے خارج ہیں خیرالامور اوسطہا1 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے ہاتھ گردن میں باندھ کر نہ ڈال لو کہ بخل کرو اور نہ بالکل کھول دو کہ اسراف کرنے لگو نیز فرماتا ہے کہ ہمارے بندوں کی یہ شان ہے کہ نہ وہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل بلکہ اس کے بین بین (بیچ بیچ) حالت پررہتے ہیں۔ فصل۔ بدخصلتی کا علاج نفس پر جبر کرنا ہے: ان بداخلاقیوں کی اصلاح چونکہ ریاضت اور مجاہدہ سے ہوسکتی ہے لہٰذا اگر کسی میں کوئی خلق براموجود ہوتو اس کو چاہئے کہ نفس پر جبر کرے مثلا اگر بخل کی عادت ہوتو جبراوقہرا اس کو ترک کرے اور نفس کو ناراض کر کے خرچ کرنے کی عادت ڈالے اور اگر فضول خرچی کا خوگر ہو تو نفس کو فرضی سخاوت سے روکے اور خرچ کرنا بند کرے تاکہ کم خرچی کی عادت ہوجائے پھر جب حالت اصلاح پر آجائے گی تو وہی بین بین حالت پیدا ہوجائے گی جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ حسن ِ خُلق میں تکلف اخلاق حسنہ کا وسیلہ ہے: مگر یہ نہ سمجھنا کہ جبراًوقہرا خرچ کرنے سے سخی یا بہ تکلف عاجزی کرنے سے متواضع کہلائو گے نہیں ہرگز نہیں سخاوت اور تواضع تو اس طبعی حالت کا نام ہے جو بلاتکلف و بے تصنع مال کو موقع پر خرچ کرائے اور دوسروں کے سامنے انکساری کا مضمون خود بخود ظاہر کرائے نہ کہ ! سب کاموں میں بہتر کام ان کے متوسط درجے کے ہواکرتے ہیں۔