تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
بڑھ جاتی ہے اور جب لغو گوئی بڑھ گئی تو اللہ جانے کس حد تک پہنچے اور کیا کچھ منہ سے بکتا پھرے حضرت ابوبکر صدیقb اپنے منہ میں پتھر رکھ لیتے تھے کہ نفس متنبہ (خبردار) رہے اور زبان ضرورت سے زیادہ کلام نہ کرے۔ فصل: زبان کے متعلق گناہ سے بچنے کے لئے اس آیت پر عمل کرنا کافی ہے۔ ( لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَجْوٰھُمْ) جس کا خلاصہ منشا یہ ہے کہ فضول اور بے فائدہ کلام نہ کرو صرف ضروری بات کے اظہار پر اکتفا کرواسی میں نجات ہے۔ کلام عبث کی ماہیت: حضرت انسb فرماتے ہیں کہ کسی غزوہ میں ایک نوجوان شہید ہوگیا لڑائی سے فراغت کے بعد شہیدوں کی نعشوں میں اس کی نعش بھی ملی اور دیکھا گیا کہ اس کے پیٹ پرپتھر بندھا ہوا تھا تھوڑی دیر بعد اس کی ماں آئی اور فاقہ کی حالت میں اللہ کے نام پر جان دینے والے شہید بیٹے کے پاس بیٹھ کر اس کے منہ سے مٹی پونچھی اور کہا کہ بیٹا تجھ کو جنت مبارک ہو یہ سن کر رسول مقبولa نے فرمایا کہ کیا خبر ہے؟ ممکن ہے کہ بے فائدہ کلام کرنے کا عادی1 ہو اس سے معلوم ہوا کہ فضول گوئی کی عادت جنت میںجانے سے روکنے والی چیز ہے۔ مسلمان کو وہی بات زبان سے نکالنی چاہیے جس میں یا کوئی ثواب حاصل ہو اور یا کوئی نقصان رفع ہو اور جس بات کے زبان سے نکالنے میں کوئی ثواب ہوتا ہے نہ کچھ نقصان رفع ہوتا ہے تو وہ عبث اور فضول ہے اور اس سے احتراز کرنے کی ضرورت ہے جتنی دیر فضول گوئی میںمشغول رہتے ہو اگر یہ وقت ذکر الٰہی میں صرف ہوتو نیکیوں کاکتنا بڑا خزانہ جمع ہو جائے پھر بھلا خزانے کو چھوڑنا اور پتھر ڈھیلے جمع کرنا کون سی عقل مندی ہے اور اگر فضول گوئی سے بڑھ کر دروغ گوئی تک نوبت پہنچی اور زبان سے غیبت اور گالیاں اور فحش یعنی ایسی باتیں نکلنے لگیں جن میں نفع تودرکنار الٹا دین کا ضرر اور نقصان ہے تب تو ایسی مثال ہو گی کہ بھر پور خزانہ چھوڑ کر آگ کے الائو میں جاگھسے اللہ پناہ میں رکھے۔