تحفہ حرمین شریفین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یعنی ہر شخص کو صبح کے وقت دوسرے لوگ صبح بخیر کی دعا دیتے ہیں لیکن موت کا کسی کو پتہ نہیں کب آکھڑی ہو اور وہ(موت) انسان سے اتنے قریب ہے کہ اس کے جوتے کا تسمہ بھی قدم سے اتنا قریب نہیں ۔اور حضرت بلال کو جب بخار سے افاقہ ہوتا تھا تو مکہ مکرمہ کو یاد کرکے یوں شعر پڑھتے:ألا لیت شعری هل أبیتن لیلة کاش مجھے معلوم ہوجائے کہ کیا میں کوئی رات گزار سکوں گابواد وحولي إذخر وجلیل وادی(مکہ) میں اس حال میں کہ اذخر اور جلیل گھا س میرے ارد گرد ہووهل أردن یوماً میاہ مجنة اور کیا میں پہنچ سکوں گا مقام مجنہ کے پانیوں پروهل تبدون لي شامة وطفیل اور کیا مجھے‘‘ شامہ’’ اور‘‘ طفیل’’ (پہاڑیاں کبھی) نظر آئیں گی؟ یعنی حضرت بلال رضى ا لله عنہ کو حرم ِمکہ کی یادبہت زیادہ آتی تھی ،کیونکہ مکہ مکرمہ کی آب و ہوا بڑی صحت افزا تھی جبکہ مدینہ منورہ اسوقت تک وباء زدہ تھا۔ (مجنه مکہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے ،جہاں عرب کا مشہور بازار موسم حج میں لگتا تھا، اور وہاں پانی کا قدرتی ذخیرہ بھی تھا، شامہ اور طفیل مکہ مکرمہ کی دو پہاڑیوں کے نام ہیں )۔ شراح نے لکھا ہے کہ یہ دونوں مکہ سے تیس میل دور پہاڑ ہیں اور بعض حضرات کا قول یہ دونوں پہاڑ مقام‘‘ مجنه ’’کے قریب ہیں ۔علامہ خطابی نے فرمایا ہے کہ ”میں بھی یہی سمجھتا رہا کہ یہ دونوں پہاڑ ہیں، پھر وہاں سے میرا گذر ہوا تو پتہ چلا کہ