تحفہ حرمین شریفین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جواب: بمقتضائے قواعد شرعیہ جواب یہ ہے کہ چونکہ بچہ کی دودھ پلوانے کی ذمہ داری اور اس کی پرورش ودیکھ بھال شوہر پر واجب ہے نہ کہ عورت پر ، رضاعت وحضانت حق لہا ہے حق علیہا نہیں إلا فی بعض الصور، (لہٰذا شوہر کو اس عذر کی وجہ سے جائز نہیں کہ وہ بیوی کو حج سے منع کرے ) ، اور بچہ پر اول تو کوئی ضرر یقینی نہیں ، اور اگر تسلیم بھی کرلیں ، تو مرد کو چاہئے کہ کسی دودھ پلانے والی عورت کو اجرت پر رکھ لے اور بچہ کو اس کے پاس چھوڑ جائے ، اور تالم بمفارقت الولد( بچے کی جدائی سے دکھ ہونا ) عذر شرعی نہیں ہے ، اور اگر بچہ کو ساتھ لے جانے میں ضرر کاگمان نہیں ہے تو یہ امر یعنی ماں سے جدا کرکے اس کو گھر چھوڑ جانا جائز نہیں ،لأن فیه إتلاف الحق للمرأۃ من الرضاعة والحضانة ۔ واللہ تعالیٰ اعلم (امداد الفتاوی ج۲/۱۵۹) حقوق العبادسےمتعلق بعض ضروری تنبیہات مسئلہ: اگر کسی عورت نے کسی پر ظلم کررکھا ہو یا کسی کا کوئی حق اس کے ذمہ ہو اور وہ حج کو جارہی ہے، تو وہ بمنزلہ ایک قرضدار کے ہے ، قرض خواہ گویاکہ اس سے یہ کہتاہے کہ تو کہاں جارہی ہے؟ کیا تو اس حالت میں بارگاہ رب العالمین کے دربار میں حاضری کا ارادہ کرتی ہے تو تو مجرم ہے،اس کے حکم کو ضائع کررہی ہے، حکم عدولی کی حالت میں حاضر ہو رہی ہے ،کیا تونہیں ڈرتی کہ وہ تجھ کو مردود کرکے واپس کردے ،اگر تو قبولیت کی خواہشمندہے، تو اس ظلم سے توبہ کرکے حاضر ہو۔ اس کی مطیع فرمانبردار بن کر پہنچ ورنہ تیرا یہ سفر ابتداء اور انتہاء کے اعتبار سے مردود ہو نے کے قابل ہے ۔