تحفہ حرمین شریفین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آبِ زمزم کو مکہ مکرمہ سےاپنےعلاقوں میں لیجانا اہل علم کا اتفاق ہے کہ آبِ زمزم کو مکہ مکرمہ سے دوسرے شہروں کی طرف منتقل کرنا درست ہے۔ فاکھی نے اخبار مکہ میں اور امام بیہقی نے اپنی سنن میں روایت کیاہے کہ رسول اللہ ﷺماء زمزم مشکیزوں میں اٹھاکرلے گئے اور آنحضرت ﷺمریضوں پر اسکو چھڑکتے تھے اور انکو پلاتے تھے ، امام ترمذی نے اپنی سنن میں روایت کیاہے:عن عائشة رضی اللہ عنها أنها کانت تحمله وتخبر أن رسول اللہ ﷺکان یحمله . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آب زمزم مکة المکرمہ سے لیجایا کرتی تھیں ،اور فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی لیجایا کرتے تھے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس کوئی مہمان آتا تو اس مہمان کو جب کھانا کھلاتے تو اسکو آب زمزم ضرور پلاتے تھے ۔ آبِ زمزم فروخت کرنے کا حکم آبِ زمزم فروخت کرنا بعض حضرات نے جائز لکھا ہے ،کیونکہ جب کسی انسان نے اس کوحاصل کرلیا تو اب وہ اس کی ملکیت میں آگیا ،جیسا کہ اور کوئی پانی کسی کی ملکیت میں آجائے تو اس کو فروخت کرسکتاہے ،ایسا ہی آبِ زمزم کا حکم ہونا چاہئے ، لیکن بندہ کے نزدیک آبِ زمزم کو فروخت کرنے کی یہ تدبیر کرنا بہتر معلوم ہوتی ہے، کہ اپنی محنت کی اجرت لے لے، یعنی جاکر بھرنا پھر اس مخصوص شخص تک پہنچانا ،یا جس گیلن (زمزمی) میں زمزم بھراہواہے تو اس گیلن کو بیچے