تحفہ حرمین شریفین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
‘‘أعاذنا الله من ذلك ’’ لہٰذا مؤمن بندہ کو متنبہ رہنا چاہیے۔ فائدہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ مذکورہ بالا حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ‘‘حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ حاجی کے چھوٹے بڑے دونوں قسم کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور حقوق العباد کی بھی معافی ہو جاتی ہے۔’’ علامہ مناوی رحمہ اللہ تعالیٰ علامہ قرطبی اور قاضی عیاض کا مذہب بھی یہی نقل کیا ہے، لیکن امام الطبری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں تفصیل ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ معافی ایسے حقوق کے بارے میں ہے کہ ظالم نے توبہ کر لی ہو اور حقوق کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہو، یعنی ایسا حاجی جس کے ذمہ دوسروں کے حقوق ہیں اور وہ ان کی ادائیگی کرنے پر قدرت رکھتا ہے تو اس کی معافی حقوق العباد کے بارے میں نہ ہو گی بلکہ اس کو حقوق العباد ادا کرنا لازمی ہے۔ بعضے حجاج حدیث کا صحیح مطلب سمجھنے سے قاصر رہنے کی وجہ سے حقوق العباد ادا نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے حج کرنے کی وجہ سے حقوق العباد بھی معاف ہو گئے ایسا سمجھنا غلط ہے، حقوق العباد کا مسئلہ بہت نازک ہے ان کی ادائیگی کی فکر کرنا بے حد ضروری ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تو حدیث میں وارد ہونے والی فضیلت کا مصداق حقوق اللہ فرمایا ہے اور حقوق اللہ کے بارے میں بھی یہ تفصیل ہے کہ جس نے حقوق اللہ ادا کرنے میں کوتاہی کی ہے تو یہ کوتاہی تو معاف ہو جائے گی لیکن فی نفسہٖ وہ حق ساقط نہ ہو گا، مثلاً: کسی کے ذمہ ایک سال کی نمازیں ہیں یا ایک رمضان کے روزے ہیں یا کئی سال سے زکوٰۃ ادا نہیں کی تو اس کے ذمہ لازم ہے کہ جتنی نمازیں قضاء ہیں ان کو پڑھے اور قضاء روزے رکھے، جتنے سال کی زکاۃ دینی باقی ہے ان کی ادائیگی کرے۔ البتہ حج مبرور