تبلیغ دین مترجم اردو ( یونیکوڈ ) |
|
وہ غیبتیں کرتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو نیک سمجھتے ہیں ان کی غیبتیں بھی نرالے انداز کی ہوتی ہیں مثلا مجمع میں کہنے لگے کہ اللہ کا شکر ہے اس نے ہم کو امیروں کے دروازوں پر جانے سے بچارکھا ہے ایسی بے حیائی سے اللہ پناہ میں رکھے۔ اس کلمہ سے جو کچھ ان کا مقصود ہے وہ ظاہر ہے کہ امراء کے پاس بیٹھنے والے مولویوں پر طعن کرنا اور ان کو بے حیا کہنا منظور ہے اور ساتھ ہی اپنی صلاحیت تقویٰ جتارہے ہیں اور ریاء کاری کا گناہ کررہے ہیں اسی طرح مثلا کہنے لگے کہ فلاں شخص کی بڑی اچھی حالت ہے اگر اس میں حرص دنیا کاشائبہ نہ ہوتا جس میں ہم مولوی مبتلا ہوجاتے ہیں اس فقرہ سے بھی جو کچھ مقصود ہے وہ ذرا سے تامل میں سمجھ آسکتا ہے کہ اس کا بے صبرا ہونا ظاہر کرتے ہیں اور اپنی طرف حرص کی نسبت اس نیت سے کرتے ہیں کہ سننے والا ان کو متواضع سمجھے اور یہی غیبت ہے ساتھ ہی ریاء کاری بھی ہے زیادہ تعجب تو اس پر ہوتا ہے یہ حضرات غیبت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو غیبت سے محفوظ اور پارساسمجھتے ہیں یا مثلا بول اٹھے سبحان اللہ بڑے تعجب کی بات ہے اور جب اتنا کہنے پر لوگوں نے اس بات کے سننے کے شوق میں ان کی جانب کان لگائے تو کہنے لگے۔ کچھ نہیں فلاں شخص کا خیال آگیا تھا اللہ ہمارے اور اس کے حال پر رحم فرمائے اور توبہ کی توفیق دے۔ اس فقرہ کا بھی جو کچھ منشاء ہے وہ عقل مند پر مخفی نہیں ہے کیونکہ ان کا یہ کلمہ ترحم و شفقت یا دعا کی نیت سے نہیں ہوتا جیسا کہ ظاہری الفاظ سے وہم پڑتا ہے اس لیے کہ اگر دعا کرنی مقصود ہوتی تو دل ہی دل میں کیوں نہ کر لیتے سبحان اللہ کہہ کر لوگوں کو متوجہ کرنا اور معصیت کا شکار کرنا ہی کیا ضروری تھا؟ یا کسی شخص کا عیب ظاہر کرنا بھی کوئی شفقت یا خیر خواہی کی بات ہے؟ اسی طرح بعض لوگوں کی عادت ہے کہ غیبت سے منع کرتے ہیں کہتے ہیں کہ بھائی غیبت مت کیا کرو مگر دل ان کا غیبت کو مکروہ نہیں سمجھتا بلکہ اس نصیحت کرنے سے محض اپنی دینداری اور تقویٰ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے اسی طرح کسی مجمع میں غیبت ہوتی ہے تو ناصح اور پارسا بن کر کہنے لگتے ہیں میاں غیبت کرنا گناہ ہے اس سے ہم سننے والے بھی گناہ گار ہوتے ہیں یہ لوگ کہنے کو کہہ جاتے ہیں مگر دل ان کا مشتاق رہتا ہے کہ کاش یہ شخص ہماری نصیحت پر عمل نہ کرے جو کچھ کہہ رہا ہے