خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ہے۔ اللہ کا شکرکر و کہ کسی ایسے کے چکر میں نہیں آگئے ورنہ عمر بھر خاک چھانتے اور کچھ حاصل نہ ہوتا۔ بچوں کی ابتدا کے زمانے میں ماں کا دودھ ہی کام کرتاہے۔ اسی سے نشو و نما ہوتی ہے۔ چاہے پھر پہلوان بن جاؤ پانچ فٹ دس انچ کا قد ہوجائےپھر ماں کے دودھ کی ضرورت نہیں رہتی لیکن ماں کے سامنے وہ گردن کو نہیں اٹھا سکتا کہ اس کےدودھ سے ہی تو یہ قد پانچ فٹ کا ہوا ہے۔ اسی طرح نسبت مع اللہ حاصل کرنے کے بعد شیخ کے پاس رہنے کی ضرورت نہیں رہتی، اس کی روح میں خود چراغ جل جاتا ہے، اسے بغیر شیخ کے بھی ہر وقت اللہ کا قرب حاصل رہتاہے لیکن شیخ کے آگے کندھوں کو جھکائے رکھنا پڑے گا کیوں کہ اس کی تربیت ہی سے تویہ مقام حاصل ہوا ہے۔ بس چند روز محنت کرنی ہے اس کے بعد ولایت نصیب ہوجائے گی۔ وہاں سب لکھا ہواہے کہ فلاں سال فلاں فلاں دن فلاں بج کر فلاں منٹ پر اس کو ولی بناؤں گا۔ لیکن یہ نیت کرنا کہ میں شیخ بن جاؤں یا خلیفہ بن جاؤں یہ اللہ کے راستے کا حجاب ہے۔ اگر یہ تمنا دل میں آئے تو اللہ سے دوری ہوجائے گی۔ مقصود صرف اللہ ہونا چاہیے کہ اے اللہ! آپ مل جائیں۔ اللہ تعالیٰ دیکھتے ہیں کہ یہ ہمیں چاہ رہا ہے یا خود کو چاہ رہا ہے کہ میں شیخ بن جاؤں۔ جہاں اللہ کے علاوہ کسی غیر کو چاہا دوری ہوگئی۔ اللہ میاں کی نظرسے نظر ملی رہے کہ وہ کس بات سے خوش ہوتے ہیں اور کس بات سےناراض ہوتے ہیں۔ خدا کے علاوہ کسی اور چیز کی تمنا اخلاص کے درخت میں گھن لگا دے گی۔ جیسے آم کی ٹہنی نیم کے درخت کی ٹہنی سے مل جائے تو سارا آم کڑوا ہوجائے گا۔نگرانیٔ قلب سلوک کاآلۂ منجنیق ہے ارشاد فرمایا کہ یہ میرے شیخ کی اسّی برس کی عبادت اور مجاہدہ کا نچوڑ ہے، خلاصہ ہے، ست ہے، جو ہر ہے۔ جو نام بھی چاہو رکھ لو ۔ غور سے سنو! اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو بناؤ۔ جو قرب اور عبادتوں سے برسوں میں بھی نہیں حاصل ہوگااگر یہ ہنر آگیا تو بہت جلد کام بن جائے گا۔ یہ مضمون حضرت نےجس وقت بیان کیا تھا اس وقت صدر مفتی دیوبند حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی، حضرت مولانا ابرارالحق