خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کیوں کہ جتنی پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے محبت ہوتی ہے اﷲ کی محبت اس سے بھی زیادہ مطلوب ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم دعا مانگ رہے ہیں: اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَاَہْلِیْ وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ ؎ اے اﷲ! مجھے آپ اپنی اتنی محبت عطا فرمادیجیے کہ میری جان سے زیادہ، اہل و عیال سے زیادہ اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ۔ آپ مجھے میری جان سے زیادہ محبوب ہوں اور اہل و عیال سے بھی زیادہ محبوب ہوں اور جتنا پیاسے کو ٹھنڈا پانی محبوب ہوتا ہے آپ مجھے اس سے بھی زیادہ پیارے معلوم ہوں۔ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تو اتنی محبت حاصل تھی یہ دعا مانگ کر امت کو مانگنا سکھا رہے ہیں۔ جب ذکر میں ایسی کیفیت پیدا ہوجائے تو سمجھ لو کہ اب ذکر کامل ہوگیا، لیکن شروع میں اس کیفیت کا انتظار نہ کرے بلکہ ذکر کی کمیت ہی کو پورا کرلے یعنی مربی نے جتنا ذکر بتایا ہے اس کی تعداد کو پورا کرلے،چاہے پورے ذکر میں بے کیفی رہے،کیوں کہ کمیت کے پورا کرنے ہی سے کیفیت حاصل ہوگی۔ کمیت کے اندر ہی حق تعالیٰ رفتہ رفتہ کیفیت ڈال دیتے ہیں۔ کیفیت حال ہے اور کمیت محل ہے اور محل کے بغیر حال کا وجود محال ہوتا ہے اور محل کو حال پر تقدم حاصل ہوتا ہے یعنی محل کے لیے تقدم علی الحال مستلزم ہے اسی طرح ذکر کی کمیت کو کیفیت پر تقدم ہے۔ پس جو لوگ محل کے بغیر حال کا انتظار کررہے ہیں وہ امرِ محال کا انتظار کررہے ہیں یعنی ذکر کی کمیت کو پورا کیے بغیر کیفیت ذکر اور حق تعالیٰ کی محبتِ خاصہ اور ولایتِ خاصہ کا انتظار کرنا امرِ محال کا انتظار کرنا ہے۔ بغیر ذکر پورا کیے کوئی کیفیتِ درد محبت اور اخلاص حاصل نہیں کرسکتا۔ کمیت کو پورا کرنے سے تمام کیفیات و حالات و مقامات حاصل ہوجاتے ہیں۔ پس ماضی کی تلافی توبہ سے کرکے حال کو نافرمانی سے محفوظ رکھیے تو زندگی کے تینوں زمانے روشن ہوجائیں گے۔حضرتِ والا کی خوش طبعی و محبت کل رات ۴؍شوال کو بعد عشاء جب حضراتِ مذکورہ حیدرآباد سے آئے تو ------------------------------