خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کہ اتنے میں معشوق کے ہونٹ پر تتیہ نے کاٹ لیا اور معشوق کا ہونٹ ایک انچ سے ساڑھے چار انچ کا ہو گیا۔ اب عاشق صاحب کی نظر معشوق کی طرف نہیں اٹھ رہی ہے تو اس نے کہا کہ میری طرف دیکھتے کیوں نہیں؟ تو عاشق صاحب کہتے ہیں کہ حسن کی تباہی نہیں دیکھی جاتی ۔ایسے بے حقیقت اور فانی حُسن پر کیا مرتے ہو کہ وہ حُسن بھی فانی ہے اور عشق بھی فانی ہے ۔اس ذات پاک تعالیٰ شانہٗ پر مرو جس کے حُسن کو کبھی زوال نہیں۔۳؍ شوال المکرم ۱۳۸۹ھ مطابق ۱۳؍ دسمبر ۱۹۶۹ء، بوقت بعد نمازِ فجر بمقام ۴ ۔جی۱۲/۱،ناظم آباد،کراچی حق تعالیٰ کو کون پاتا ہے اور کون محروم رہتا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ حُسن مجازی کی مثال رنگین بلب کی سی ہے جس کو نور کا ایک ذرّہ سر چشمۂ نور یعنی غیبی پاور ہاؤس سے مل گیا ہے جس سے اس میں یہ روشنی نظر آرہی ہے، لیکن جو شخص بلب کے نور پر فریفتہ ہو جا ئے گاتو وہ سر چشمۂ نور تک نہیں پہنچ سکتا کیوں کہ بلب کی روشنی اس کو پاور ہاؤس کی طرف التفات نہ کرنے دے گی۔ وہ یہی سمجھے گا کہ یہ بلب ہی سب کچھ ہے ۔اسی طرح حُسنِ مجازی در اصل اﷲ تعالیٰ کے حُسن و جمال کا ایک ادنیٰ ذرّہ ہے ۔جو شخص اس ذرّۂ حُسن پر فریفتہ ہو جائے گا وہ سر چشمۂ حُسن و جمال یعنی اﷲ تعالیٰ کو نہیں پا سکتا کیوں کہ اس کی نظریں تواس بلب پر فریفتہ ہو گئی ہیں اور اس کے حُسن تک محدود رہ کر وہ سرچشمۂ نور کی تلاش و جستجو سے محروم رہے گا۔ اسے خبر نہیں کہ یہ بلب پاور ہاؤس کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتااور ان بلبوں کی طرف التفات کے معنیٰ ہیں مرکز نور سے محرومی۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جس بندے پر فضل فرماتے ہیں اس کے لیے اکثر ان بلبوں پر سیاہی کے شیشے لگادیتے ہیں اور حُسن مجازی سے اس کو دور کر دیتے ہیں مثلاً کسی کو بد صورت بیوی دے دی تاکہ وہ اس بلب کی روشنی پر عاشق نہ ہو اور دنیا سے دل اچاٹ رہے اور ہماری جستجو میں سرگرداں پھرے۔ بعض دفعہ جائز اور حلال لذت بھی اﷲ کے راستے میں حجاب ہوجاتی ہے، مثلاً کوئی شخص بیوی پر اتنا عاشق ہو جائے کہ اﷲ سے غافل ہو جائے تو یہ حلال لذّت اس کے