خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
میرے گھر میں سونا نہیں ہے، میں فقیر ہوں لیکن میرے دل میں سونے کا خالق ہے میں ایسا امیر ہوں۔حضرتِ والا دامت برکاتہم کا طرزِ عمل اور سلسلے کی برکات ارشاد فرمایا کہ میرے سفر افریقہ،امریکا، کینیڈا، نیویارک، شکاگو، ڈے ٹو رائٹ اورایڈمنٹن میں ہورہے ہیں۔ اللہ کی رحمت سے آج سارے عالم میں مجھے یہ توفیق اور سعادت اللہ پاک کی رحمت سے اور بزرگو ں کی دعاؤں کے صدقے میں حاصل ہورہی ہے کہ میر اسفر ہو رہا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے میرے ساتھ سفر کیا ہے ان سے پوچھو کہ میری تقریر کا رنگ مال داروں کے سامنے کیا ہوتا ہے اور علماء کے سامنے کس طرح تقریر کر تا ہوں۔ جن کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ کمپیو ٹر سے اپنا پیسہ معلوم کرتے ہیں گن نہیں سکتے۔ جو مجھے جنوبی افریقہ بلاتا ہے اس نے خود ہی بتایا کہ میرے پا س اتنی دولت ہے کہ مجھے خود پتا نہیں، کمپیوٹر سے معلوم کر تاہوں۔ لیکن اس نے میر اپیر دبایا، تو سارے علمائے جنوبی افریقہ نے کہا کہ اس کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی مولوی کا پیر دبایا ہو،لیکن آپ کے پیر کیوں دبا رہا ہے؟ میں نے کہا اس نے میرااس لیے پیر دبایا کہ میں اس کی جیب نہیں دباتا ہوں، وہ مجھے اپنی دوکان پر لے گیا تھاجو اتنی بڑی تھی جیسے ایئرپورٹ۔ اس نے مجھ سے کہا جو چیز آپ کو پسند ہو وہ لے لیں،مجھے بہت خوشی ہوگی۔ میں نے کہا کہ مجھے تو آپ پسند ہیں، اگر آپ میری مجلس میں آئیں اور اﷲ کی محبت کی بات سنیں تو میں سمجھوں گا کہ آپ نے ساری دوکان میرے نام لکھ دی۔ مولانا حسین بھیات بھی ساتھ تھے۔ آ پ بتائیے کہ سفرمیں میں نے کسی مدرسے کا نا م لیا؟ کسی مسجد کے منبر پر، کسی جلسے میں میں نے اپنے مدرسے گلشن اقبال کانام نہیں لیا،اس لیے کہ کہیں ان کے دلوں میں یہ وسوسہ نہ آجائے کہ اچھا ’’آمدم بر سرِمطلب‘‘۔ میں نے کہا کہ یہ اللہ کی محبت ہے اگرمیرے پاس مدرسہ بھی نہ ہو اور بالفرض عمار ت بھی خانقاہ کی نہ ہو تو ان شا ء اللہ اختر جنگل میں بھی بیٹھ جائے گا تو دیکھناوہاں کیا عالم ہو گا اور دیکھ لیا جنگل میں آپ نے ۔ بتاؤ مولوی حسین !جب میں تالاب ودریا کے کنارے جنگل گیا ہوں تو کیا مخلوق کا ایک جم غفیر نہیں پہنچا؟ ؎